NewsInKhabar

کیا ہے نئی تعلیمی پالیسی ،اتنا شور کیوں ہے؟

وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں مرکزی کابینہ نے نئی تعلیمی پالیسی کے مسودہ کو منظوری دے دی ہے۔ اس کا اعلان حکومت نے بدھ کو کردیا۔ حکومت کے ذریعے منظورکردہ نئی تعلیمی پالیسی کیسی ہے، کیا ہے اور اس پر شور و ہنگامہ کی وجوہات کیا ہیں؟اس پر بحث بعد اس نئی تعلیمی پالیسی کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ کورس کے درمیان پڑھائی چھوڑنے یا چھوٹ جانے سے طالب علم کا زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ یعنی آپ نے آنرس ڈگری کے لیے پڑھائی شروع کی ہے ، اور پہلے سال کے بعد ہی پڑھائی چھوٹ گئی ، یا پھر آپ نے چھوڑ دی تو آپ کو سرٹیفکٹ مل جائے گا۔ اسی طرح دوسال کی پڑھائی پوری کرنے پر ڈپلومہ سرٹیفکٹ ،پھر ڈگری اور آنرس کا معاملہ رہے گا۔

تین دہائی بعد نئی تعلیمی پالیسی
نئی تعلیمی پالیسی ۳۴؍ سال کے بعد منظور کی گئی ہے۔ اس کے ذریعے ملک کے نظام تعلیم میں کئی بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس کے مطابق دسویں کا بورڈ امتحان نہیں ہوگا۔اب صرف بارہویں کا بورڈ امتحان ہوگا۔ بارہویں تک مفت تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔

مادری زبان میں ابتدائی تعلیم
شروع سے لے کر پانچویں درجہ تک بچوں کو مقامی یا مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی۔ اس میں مقامی زبان کا ذکر کرکے حکومت مادری زبان کی لازمیت سے اپنا پیچھا چھڑانے میں کامیاب رہی ہے۔ دوسری صورت میں ملک میں کہیں بھی ایک بھی بچہ اگر اسکول میں زیر تعلیم ہوتا تو اس کو مادری زبان میں پڑھانے کا انتظام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی۔

صد فیصد خواندگی
نئی تعلیمی پالیسی کے تحت ۲۰۳۰ء تک ابتدائی سے سیکنڈری سطح تک صد فیصد اور اعلیٰ تعلیم کے لیے کم سے کم ۵۰؍ فیصد داخلہ کی شرح حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

تعلیم پرمجموعی آمدنی کا چھ فیصد خرچ ہوگا
مرکزی حکومت نے تعلیم پر موجودہ ۴ء۴۳؍ فیصد سے بڑھا کر مجموعی ناخالص پیداوار (جی ڈی پی) کا چھ فیصد حصہ خرچ کرنے کی بات کہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ریاستی حکومتوں کو بھی اپنے خرچ میں اضافہ کرنا ہوگا۔

اتنی ہی رقم سرپرست بھی خرچ کریں
خبر کے درمیان میں یہ ہماری طرف سے مشورہ ہے۔ جب حکومت ملک میں تعلیم پر ملک کی مجموعی ناخالص پیداوار کا صرف چھ فیصد خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ، تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ سرپرستوں کو بھی اپنے بچوں کی تعلیم پراپنی آمدنی کا صرف چھ فیصد ہی خرچ کرنے کا حق ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی سبھی کو ایک ہی طرح کے اسکول میں بھی پڑھنے کا حق ملتا۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا کہ غریب اور امیرسب کے بچوں کو ایک جیسی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا اور دوسری جانب اسکولوں کو بھی کوئی مالی نقصان نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ ہے تو وہ اپنے بچے کی تعلیم پر ہر سال چھ لاکھ روپے خرچ کرے گا جبکہ ایک لاکھ روپے آمدنی والے شخص کے بچے چھ ہزار روپے ہی میں پڑھ لیں گے۔ اسی طرح جن بچوں کے سرپرستوں کی کوئی آمدنی نہیں ہوگی ، ان کا خرچ حکومت اٹھائے گی۔
نئی تعلیمی پالیسی میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ ہم آپ کے لیے لے کر آتے رہیں گے۔ نیوز ان خبر کئی دنوں کی خاموشی کے بعد سرگرم ہوئی ہے۔ اس لیے تاخیر کے باوجود ہم نے تعلیم کی خبر ہی کو پہلی خبر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

نوٹ  : آپ بھی اس ویب سائٹ کو اپنی صلاحیت نکھارنے کے لیے استعال کر سکتے ہیں۔ اپنے علاقے کی تعلیمی ، سماجی اور سیاسی و اقتصادی صورت حال کے تعلق سے ہمیں خبریں ، تصاویراور ویڈیو بھیج سکتے ہیں۔ آپ جو بھی کام کررہے ہیں، اس کےساتھ صحافت کا بھی کام ضرور کریں ۔ یہ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اسے پیشہ کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں تو ہم سے رابطہ کریں ۔
awaminews@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *