NewsInKhabar

!ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی کی قربانیاں

عالمی شہرت یافتہ عالم ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی نہیں رہے۔ ان کا انتقال ٣٠جولائی کو مدینہ منورہ میں ہو گیا۔ کون تھے ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی جن کی رحلت پر عالم اسلام سوگوار ہے۔ جاننے کے پڑھیں مولانا طاہر مدنی کا مضمون

طاہر مدنی*

تیس جولائی 2020 بروز جمعرات سہ پہر میں یہ افسوسناک خبر ملی کہ بلند پایہ علمی شخصیت جسے دنیا ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی صاحب کے نام سے جانتی ہے، اب ہمارے درمیان نہیں رہے. مدینہ منورہ میں ظہر کے وقت ان کا انتقال ہوا، مسجد نبوی میں بعد مغرب جنازہ ہوا اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی، اتفاق سے یوم عرفہ تھا، عازمین حج میدان عرفات میں ذکر و دعا میں مشغول تھے.
ان کی زندگی سراسر قربانی سے عبارت تھی. نوجوانی میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور اس راہ میں بڑی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن ثابت قدم رہے، اللہ کی مدد شامل حال رہی، تعلیم و تربیت کی راہ میں صبر کے ساتھ آگے بڑھتے رہے، بالآخر اللہ نے بہت نوازا اور مسجد نبوی میں درس حدیث دینے والوں کی فہرست میں شمولیت بھی حاصل ہوئی، آج ان کی وفات پر ہر چہار جانب سے تعزیت کا اظہار ہو رہا ہے اور ان کی عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے.
ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے معروف قصبہ بلریا گنج میں آج سے 77 برس قبل 1943 میں ایک دھوبی خاندان میں ہوئی تھی، خاندان کے افراد اب بھی موجود ہیں. ان کا نام بانکے لال رکھا گیا، والد کا نام سکھدیو تھا. کلکتہ میں ان کی دکان تھی. مڈل کلاس تک تعلیم مقامی مڈل اسکول میں ہوئی، اس کے بعد ہائی اسکول قریب میں ہی مالتاڑی کے اسکول سے کیا. انٹر کے لیے شبلی کالج اعظم گڑھ میں داخل ہوئے اور شہر میں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں رہنے لگے. ذہانت خدا داد تھی اور مطالعہ کے شوقین تھے.
وہ 1959 میں چھٹیوں کے دوران گھر آئے ہوئے تھے کہ  ایک دن اپنے پڑوسی ماسٹر جنید احمد خان کے ہمراہ علاقے کی مشہور و معروف شخصیت حکیم محمد ایوب صاحب کے دوا خانے بغرض ملاقات پہنچ گئے. حکیم صاحب بہت تپاک سے ملے اور بہت اپنائیت کا ثبوت دیا. وہ جماعت اسلامی کے بہت سرگرم رہنما تھے. اسپتال میں لٹریچر بھی رکھتے تھے تاکہ انتظار کے لمحات میں مریض کچھ مطالعہ کرلیں. انہوں نے نے مطالعہ کے لیے سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب؛ ستیہ دھرم؛ عنایت کی، جس کے پڑھنے کے بعد دل کی دنیا ہی بدل گئی، پھر تو مطالعہ کتب کا سلسلہ شروع ہوگیا، ہندی ترجمہ قرآن مجید پڑھا، شبلی کالج میں جماعت اسلامی سے وابستہ ماسٹر عبد الحکیم صاحب کا سلسلہ درس قرآن جاری تھا. اس میں شریک ہونے لگے، رفتہ رفتہ آبائی مذہب سے برگشتگی بڑھتی گئی، اللہ نے قسمت میں ہدایت لکھی تھی اور بانکے لال ایک دن امام الدین ہوگئے. مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد شروع میں ان کا نام امام الدین رکھا گیا تھا. ابتداء میں تبدیلی مذہب کو راز میں رکھنے کی کوشش ہوئی، لیکن دھیرے دھیرے راز کھلنا ہی تھا سو کھل گیا اور اس کے بعد وہ سب ہوا، جو اس راہ کے مسافروں کو پیش آتا ہے. عہد نبوی میں جس طرح ایمان لانے والوں کو ستایا جاتا تھا اسی طرح ان بانکے لال سے امام الدین بننے والے پر بھی ہر حربہ آزمایا گیا. لیکن اللہ نے غضب کی استقامت عطا کی تھی، پہاڑ کی طرح اپنے ایمان و عقیدہ پر جمے رہے؛
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کر جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے؟
اس طرح کی استقامت پشتینی مسلمانوں میں نظر نہیں آتی، تھوڑی سی مشکل کیا پڑی کہ گھبرا جاتے ہیں.
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے ذمہ داروں نے جگہ بدلنے کا فیصلہ کیا. یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ اپنی مرضی اور خواہش سے کوئی نوجوان اگر اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے اور وہ ہجرت پر مجبور ہو جاتا ہے. جبکہ یہ دستوری ضمانت کی صریح خلاف ورزی ہے.
موصوف کو ضلع بدایوں کے قصبہ ککرالہ بھیج دیا گیا جہاں جماعت اسلامی کی مضبوط یونٹ موجود تھی اور ان کی سرپرستی میں درسگاہ اسلامی قائم تھی. اس درسگاہ میں انہوں نے پڑھا بھی اور ہندی و انگریزی پڑھائی بھی. علم کا شوق تھا، اس کے بعد انہیں جنوبی ہند کی مشہور درسگاہ جامعہ دار السلام عمر آباد بھیج دیا گیا، جہاں آٹھ سال کا کورس انہوں نے چھ سال میں پورا کر لیا اور امتیازی نمبرات کے ساتھ سند فضیلت حاصل کی. مولانا عبد الواجد رحمانی رح، مولانا عبد السبحان اعظمی رح، مولانا سید عبد الکبیر عمری رح اور مولانا ظہیر الدین اثری رح جیسے اساطین علم و فضل سے استفادے کا موقع انہیں ملا.
فراغت کے بعد جب بلریاگنج تشریف لائے تو پورا قصبہ استقبال کے لیے دیدہ و دل بچھائے ہوئے تھا اور جہاں چند سال پہلے رہنا دوبھر تھا، وہاں ایک بطل جلیل کا خیر مقدم ہو رہا تھا. عید الفطر کا موقع تھا، عیدگاہ میں موصوف نے نماز عید کی امامت کی اور دلپذیر خطبہ ارشاد فرمایا، قصبے کے برادران وطن حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ ایک دھوبی فیملی سے تعلق رکھنے والا بانکے لال آج پشتینی مسلمانوں کی امامت کر رہا ہے. یہی اسلام کا امتیاز ہے. یہاں رنگ اور نسل کی بنیاد پر کوئی برتری نہیں ملتی، بلکہ علم و فضل اور تقوی اور خدا ترسی کی بنیاد پر ملتی ہے. حبشہ کے رہنے والے سیاہ فام بلال رضی اللہ عنہ سیدنا کہلاتے ہیں اور قریش سے تعلق رکھنے والا ابو لہب لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے. مسلمان اگر اسلام کی تعلیم مساوات کا عملی مظاہرہ اپنے سماج میں کریں تو بہت ساری سعید روحوں کو یہاں سکون و قرار ملے گا.
اسلام کی اشاعت کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ عقیدہ توحید اور تکریم انسانیت کی تعلیم کا اس میں غیر معمولی کردار ہے. ہندوستان میں مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی، لیکن نہ تو منظم دعوتی کام ہوا اور نہ اسلامی سماج کا نمونہ ہی یہاں پیش ہوسکا، ورنہ آج صورتحال کچھ اور ہوتی.
علم کا شوق تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، مسافر پھر کشاں کشاں مدینہ منورہ پہنچ گیا، جہاں اس کی منزل عالم اسلام کی مشہور دانش گاہ مدینہ یونیورسٹی تھی. وہ زمانہ شیخ عبد العزیز بن باز رح اور علامہ ناصر الدین البانی رح کا زمانہ تھا. چار سال میں گریجویشن کیا. اس کے بعد مکہ مکرمہ میں کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جو اب ام القریٰ یونیورسٹی کے نام سے جانی جاتی ہے، وہاں سے ایم اے کیا. آپ کی تھیسس کا موضوع تھا؛ ابو ھریرہ فی ضوء مرویاتہ؛ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی مرویات کی روشنی میں. مستشرقین نے خاص طور پر حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو نشانہ بنایا تھا، ان کے اعتراضات کا دندان شکن جواب موصوف نے اپنی تھیسس میں دیا ہے. اگلا پڑاؤ آپ کا جامعہ ازہر تھا جہاں سے ڈاکٹریٹ کیا. اقصية رسول الله صلى الله عليه وسلم نامی کتاب کی اعلی درجے کی تحقیق پر یہ ڈگری دی گئی.
ملازمت کا آغاز رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ سے ہوا، اس کے بعد حدیث کے پروفیسر کی حیثیت سے 1979 میں مدینہ یونیورسٹی کی حدیث فیکلٹی میں تقرر ہوگیا، بعد میں اس کے ڈین بھی ہوئے. آپ کو سعودی عرب کی نیشنیلٹی حاصل ہوئی اور مستقل طور مدینہ النبی میں سکونت پذیر ہوگئے. ریٹائرمنٹ کے بعد یکسوئی سے تصنیف و تالیف میں مشغول رہے. مسجد نبوی میں درس حدیث کا سلسلہ بھی چلتا رہا. آپ کا اختصاص علوم الحدیث تھا اس موضوع پر متعدد تصنیفات ہیں جو داخل نصاب ہیں. مذاہب پر بھی کئی کتابیں ہیں، یہودیت، نصرانیت اور ہندوستانی مذاہب کا تعارف ان کتابوں میں ہے. طلبہ، اساتذہ اور اسکالرس کے لیے بہت معاون کتب ہیں. آپ نے ہندی زبان میں قرآن مجید کا انسائیکلوپیڈیا تیار کیا، جس میں قرآن مجید کی اصطلاحات کا بڑا جامع تعارف ہے. اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے.
عمر عزیز کے آخری بیس سال اس ماہر حدیث اور خادم سنت نے ایک عظیم الشان پروجیکٹ کے لیے وقف کردیا. وہ تمام صحیح احادیث جو بہت ساری کتب احادیث میں بکھری ہوئی ہیں ان کو اکٹھا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور بالآخر انتہائی عرق ریزی اور انتھک جدوجہد کے بعد اپنے ڈریم پروجیکٹ کی تکمیل میں کامیاب ہوگئے اور امت کو صحیح احادیث کا انسائیکلوپیڈیا فراہم کردیا. الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل 19 جلدوں میں شائع ہوئی ہے جو 16800 احادیث پر مشتمل ہے. حیرت ناک بات ہے کہ جو بڑا کام اکیڈمی انجام دیتی ہے تن تنہا انہوں نے انجام دیا. یکسوئی، لگن اور محنت سے جب کوئی کام مسلسل ہوتا ہے تو ایسے حیران کن نتائج برآمد ہوتے ہیں، ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء.
ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی صاحب اپنے والدین اور اعزہ سے بڑا تعلق رکھتے تھے اور برابر ان کی دیکھ ریکھ اور مدد کرتے تھے. ان کی ہدایت کے لیے برابر کوشاں رہے لیکن ان کی قسمت میں ہدایت نہیں لکھی تھی و الله يهدي من يشاء
بہت متواضع اور منکسر المزاج تھے. انتہائی مہمان نواز تھے. دعوتی تڑپ رکھتے تھے. مختلف ممالک کا دعوتی سفر کیا. جامعة الفلاح سے بڑا تعلق تھا، تمام تصنیفات یہاں بھیجتے تھے. جب بلریا گنج آتے تھے تو جامعہ میں ان کے دروس ہوتے تھے.
ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی نے 77 برس عمر پائی، پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے. پوری عمر دین کی خدمت میں لگا دی. ان کی تصنیفات و تحقیقات ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں. زندگی بھی قابل رشک رہی اور موت بھی. شاگردوں کی بہت بڑی تعداد چھوڑ کر گئے ہیں. دعوت کے کام پر بہت زور دیتے تھے. اسلام کی قوت کا سرچشمہ یہی ہے. اس پر پوری توجہ کی ضرورت ہے. مدارس میں دعاة کی تیاری کا اہتمام ہو، جماعتوں اور تنظیموں کی سرگرمیوں کا یہی مرکز ہو اور اس راہ کی مشکلات کو صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے. یہی مرحوم کی زندگی کا سبق ہے. اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، خدمات کو قبول فرمائے اور ہمیں ان کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین
یکم اگست2020۔

*مضمون نگار مولانا طاہر مدنی جامعتہ الفلاح بلریا گنج کے مہتمم ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *