نئی تعلیمی پالیسی اردو مخالف نہیں ہے: شیخ عقیل
مہاتما گاندھی بین الاقوامی یونیورسٹی وردھا میں شعبۂ اردو کو برقرار رکھنے اور مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی موتیہاری میں شعبۂ اردو کے قیام کے سلسلے میں وائس چانسلروں کے نام کونسل کی جانب سے مکتوب روانہ
نئی دہلی: موجوده حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی میں کہیں بھی اردو کی مخالفت نہیں کی ہے اور نہ ہی بنیادی تعلیمی نظام سے اردو کو خارج کرنے کا کوئی ذکر ہے۔ ملک کو ٣٤ برسوں بعد ایک جامع قومی تعلیمی پالیسی ملی ہے جس کا سبھی کو استقبال کرنا چاہیے۔ یہ باتیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے نئی تعلیمی پالیسی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ آئین کے آٹھویں شیڈول میں درج سبھی زبانوں کے فروغ پر توجہ دی جائے گی اور اس مقصد سے اکیڈمیوں کا قیام کیا جائے گا، ساتھ ہی ان کی ترویج و ترقی کے سلسلے میں ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔
ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ ملک کا آئین جب مادری زبان میں بنیادی تعلیم کی وکالت کرتا ہے تو پھر ملک کی تعلیمی پالیسی میں اس کی خلاف ورزی کیسے ہوسکتی ہے؟ نئی تعلیمی پالیسی میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ شروع سے پانچویں کلاس تک لازمی طور پر اور آٹھویں کلاس تک اختیاری طور پر ذریعۂ تعلیم
مادری اور مقامی زبان ہوگی۔ اس سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جن طلبہ کی مادری زبان اردو ہے وه اردو میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس پالیسی کے تحت ملک کی تمام زبانوں کے تحفظ اور ان کی ترقی کے لیے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ انٹرپریٹیشن (آئی آئی ٹی آئی) کے قیام کے ساتھ ساتھ پالی، فارسی اور پراکرت جیسی زبانوں کے فروغ کے لیے قومی سطح کے اداروں کی بھی تشکیل کی جائے گی۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ یہ پالیسی اس لیے بھی بہتر ہے کہ اس میں فرسوده نظام تعلیم کو ختم کر کے نئے انداز میں تعلیم دینے کی بات کی گئی ہے۔ طالب علموں کو بنیادی سطح پر ہی ووکیشنل تربیت دی جائے گی، انہیں کوڈنگ سکھائی جائے گی اور درجہ چھ سے ہی انٹرن شپ کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ کتابی علم سے زیاده خود سے کرنے اور سیکھنے پر توجہ دی جائے گی، آن لائن نظام تعلیم اور ورچوئل کلاسز کا سسٹم بہتر کیا جائے گا۔ حکومت کا مقصد ہے کہ ٢٠٣٠ تک ملک میں خواندگی کی شرح صد فیصد تک پہنچائی جائے ۔ یہی نہیں٢٠٢٠ میں اسکول چھوڑ چکے دو کروڑ بچوں کو دوباره اسکول سے جوڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ اعلی تعلیمی نظام میں مضامین منتخب کرنے کی آزادی ہوگی، چنانچہ اگر ہندی، سماجیات یا فلسفے کے ساتھ کوئی حساب یا علم حیوانات پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح علم کیمیا کے ساتھ تاریخ بھی پڑھ سکتا ہے۔ اردو والے اپنی دلچسپی کا کوئی بھی سبجیکٹ منتخب کر سکتے ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی میں طالب علم خود ہی اپنی جانچ اور تعین قدر کر سکیں گے۔ ایک بہت اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس پالیسی میں جی ڈی پی کا چھ فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ اس پالیسی کے نفاذ کے بعد ملک کا ایک بڑا طبقہ جو تعلیم سے دور تھا وه بھی مین اسٹریم سے جڑے گا اور تعلیم کی جانب راغب ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اردو والوں کو کسی بھی طرح کے خدشات دل سے نکالنے ہوں گے اور موجوده حکومت کے تئیں کشاده قلبی کا مظاہره کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر عقیل نے یہ بھی بتایا کہ مہاتما گاندھی انٹرنیشنل یونیورسٹی وردھا کے داخلہ نوٹیفکیشن سے اردو کو حذف کیے جانے کےسلسلے میں ہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ رہے ہیں کہ یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کو برقرار رکھا جائے۔ اسی طرح کونسل کی جانب سے مہاتما گاندھی سینٹرل یونیورسٹی موتیہاری (بہار) کے وائس چانسلر کو بھی خط بھیجا جا رہا ہے کہ وہاں شعبۂ اردو قائم کیا جائے کیوں کہ اردو ہمارے ملک کی بائیس شیڈولڈ زبانوں میں سے ایک اہم زبان ہے، اس نے ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کو
سنوارنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے اور ہماری مشترکہ و سیکولر ثقافت کا گراں قدر سرمایہ اس زبان میں محفوظ ہے۔
ڈاکٹر عقیل نے کہا کہ اس حوالے سے جو بھی بحث طلب امور ہیں ان پر میں خود وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نشنک سے بات کروں گا اور ان سے اردو پر خصوصی توجہ دینے کی گزارش کروں گا۔