NewsInKhabar

جماعت اسلامی ہند کا ملک کے معاشی بحران پر اظہار تشویش

 مجلس شوریٰ میں سیاسی،تعلیمی اور عا لمی صورت حال پر بھی غورو خوض  ہوا
 
نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ہفتہ کو ایک آن لائن پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے مجلس شوریٰ کے سہہ روزہ اجلاس منعقدہ 23 تا 25 اگست  2020 میں پاس قرار داد پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس اجلاس میں چار اہم بنیادی ایشوز پر قرار دادیں  پاس ہوئی  ہیں۔ ان میں ملک میں بگڑتی معاشی صورت حال،  جمہوری اقدار میں کرائسس، عالمی خاص طور پر مسلم ممالک کی ابتر صورت حال اور مسلم طبقہ سے خصوصی اپیل کے تعلق سے قرار دادیں پاس ہوئیں۔ اس قرار داد میں ملک و ملت کے اہم مسائل پر غور و فکر ہوا اور کچھ اہم ایشوز پر اقدامات کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اس وقت پورا ملک کورونا کی زد میں ہے اور سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، ایسے وقت میں ہمیں اپنے خالق حقیقی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی کورونا کے سبب مرنے والوں کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کے ساتھ ہی اس وبا سے متاثر ہونے والے یا اس کے سبب مالی پریشانیوں سے دو چار ہونے والوں اور اظہار رائے کے جرم میں انتظامیہ اور پولیس کے مظالم کا شکار ہو نے والوں سے اظہار ہمدردی کیا گیا۔
 جماعت اسلامی ہند کی جانب سے عالم اسلام کی موجودہ صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی ملک کے مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلائی گئیں۔ پریس میٹ میں مجلس شوریٰ کی جانب سے ملک کے معاشی بحران پر تبصرہ ہوا جس میں کہا گیا کہ بغیر کسی پیشگی تیاری کے 24 مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان اور اس میں بار بار توسیع سے 130 ملین لوگ سنگین بحران سے دو چار ہو گئے جبکہ اس سے قبل نومبر 2016 میں نوٹ بندی کی وجہ سے لوگ پہلے سے ہی پریشان تھے۔ لاک ڈاؤن نے کروڑوں لوگوں کو فاقہ کشی پر مجبور کیا، ہزاروں لقمہ اجل بن گئے اور بڑے پیمانے پر محنت کشوں نے نقل مکانی کی۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور جی ڈی پی بہت نیچے آگئی اور شرح ترقی منفی ہوجانے کے درپے ہے۔ لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کی طرف توجہ دے اور نظام معیشت، نظام صحت کو بہتر بنانے کے علاوہ کرپشن کے خاتمے پر توجہ دے۔ نجی کاری کی طرف بڑھتے قدم کو روکنے کے ساتھ ہی بجٹ کے بڑے حصے کو عوام کے رفاہ اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مختص کرے۔ شوریٰ کی ان باتوں کو بھی خاصی اہمیت دی گئی کہ عوام میں بیداری کے ساتھ ہی احساس ذمہ داری کا ہونا ضروری ہے۔ نیز بھائی چارے اور باہم کفالت کے رجحان کو فروغ دینے کو ہر شخص اپنی ذمہ داری سمجھے۔
پریس کانفرنس میں شوریٰ کی جانب سے سیاسی بحران پر فکرمندی کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ اس وقت ملک میں خود مختاری اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگایا جارہا ہے۔ عدلیہ کے اعلیٰ ترین اداروں کے فیصلے پر بھی پوری دنیا میں تنقید ہو رہی ہے، حزب اختلاف کا رول ناقابل ذکر ہو کر رہ گیا ہے اور موجود دور حکومت میں اقلیتوں، دلتوں، کمزور طبقات بالخصوص مسلم مخالف پالیسیاں ملک کی جمہوری شناخت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کو لاک ڈاؤن کے دورا ن جس طرح الزامات لگا کر قید و بند سے دو چار کیا جارہا ہے، وہ نہات قابل مذمت ہے۔ میڈیا  اور سوشل میڈیا کا کردار بھی جانبدارانہ لگتا ہے، حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
 کانفرنس میں شوری کی یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ عالم اسلام خاص طور پر یمن، شام، لبنان اور لیبیا خانہ جنگی کی حالت میں ہیں جس کے سبب لاکھوں جانیں تلف ہوئیں اور ناقابل شمار مالی نقصانات ہوئے۔ اس خرابی کو دور کرنا عالمی طاقتوں خصوصا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے، عالمی سطح پر مہم چلا کر اس کا سد باب ہونا چاہئے۔ فلسطین کے سلسلے میں امریکہ کی سر پرستی میں اسرائیل کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ حالیہ معاہدہ قابل مذمت ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا فیصلہ فلسطین پر تھوپے۔ اس سلسلے میں ہندوستان کو چاہیے کہ وہ جس مضبوطی کے ساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اسی موقف پر قائم رہے۔ قومی صورت حال پر تبصرہ میں یہ بات سامنے آئی کہ حالیہ برسوں میں جب سے فرقہ پرستی اور فسطائیت کو سرکاری چشم پوشی حاصل ہوئی ہے، صورت حال خاصی سنگین ہوگئی ہے۔ نفرت و فسطائیت اور مسلمانوں سے متعلق پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ایک موثر طریقہ خدمت خلق اور فلاح انسانیت کی سرگرمیاں اور اسلامی اخلاقیات کے عملی دعوتی مظاہر ہیں جس کی روشن مثال ملک کے مسلمانوں نے کورونا کے دوران پیش کی ہے۔ اس دوران جماعت اسلامی ہند نے بھی ملک بھر میں مہماتی انداز سے ریلیف کا کام کیا اور ملک و ملت کی رہنمائی کے لیے ہر وقت اپیلیں جاری کیں۔ مسلم امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدمت و دعوت کی راہ پر صبر و تحمل اور عزم و استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے۔ اس کے علاوہ تعلیمی لحاظ سے بھی مسلمانوں کی صورت حال بہت توجہ طلب ہے اور یہ منظم جد و جہد کی متقاضی ہے۔ ملک کی نئی تعلیمی پالیسی کی کمزوریوں پر تنقید کے ساتھ اس میں موجود امکانات کو اپنی تعلیمی ترقی کے لیے استعمال کرے۔ مسلمانوں کی این جی اوز، تنظیموں اور اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام کام ملک کے قانون کے مطابق تمام ضروری  تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام دیں۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *