NewsInKhabar

کوروناکے خوف سے عام مریض مشکل میں

خواجہ یوسف جمیل
منڈی، پونچھ
ایک طرف جہاں پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ لاکھوں افراد اس بیماری کی وجہ سے وفات پاچکے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس بیماری سے متاثر ہونے والے بہت سے افراد صحت یاب بھی ہورہے ہیں لیکن صحت یاب ہونے سے کہیں زیادہ رفتار سے لوگ اس بیماری کی زد میں آتے جارہے ہیں ۔دوسرے ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی اس بیماری نے اپنے قدم مضبوط کرلیے ہیں۔اس لیے یہ بات قابل غور ہے کہ جب دنیا کے عظیم ممالک اب تک اس بیماری کا حل تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو ایسے میں ہندوستان کے لیے اس بیماری کا مقابلہ کرنا اتنا آسان نہیںدکھائی دے رہا ہے۔ اس وائرس کے ملک میں آتےہی ایک طرف حکومت نے تحفظاتی اقدام کرتے ہوئے پورے ملک میں لاک ڈاؤن نافذکیا وہیں دوسری طرف محکمہ صحت کی جانب سے کورونا سے متاثر ہونے والوں کولگاتار قرنطینہ کیا جارہا ہے ۔ایسے حالات میںجب ڈاکٹر وں کے لیےحفاظتی کٹس بھی موجود نہیں ہیں تو یہ سو ال پیدا ہورہا ہے کہ کیا ڈاکٹروں کے لیے ان مریضوں کا معائنہ کرنا ایک بڑی چنوتی نہیں ہے ؟اب تو زکام اور بخار سے متاثر ہونے والے مریض اپنی بیماری کو ڈا کٹروں کے سامنے لانے کے بجائے خوف سے اپنے گھروں سے باہر ہی نہیں نکل رہے ہیں۔انہیں اس بات کا خوف ستاتا رہتا ہے کہ کہیں ان کا نام کورونامتاثرین کی فہرست میں نہ شامل ہوجائے۔
جو مریض ہمت دکھا کرڈاکٹروں تک رسائی حاصل کرتا ہے توڈاکٹر اسے کلینک سے چند میٹر کی دوری پر کھڑا کرکے اس کے مرض کی کیفیت پوچھ کر دوائیں دے کر ٹال دیتے ہیں۔ مریض کو بیماری چاہے کچھ اور ہی ہو لیکن مجبوراً اسے وہی دواکھانی پڑتی ہے جو ڈاکٹر دور ہی سے تجویز کردیتے ہیں۔اگر عام دنوں کی بات کی جائے تو ہندوستان میں محکمہ صحت کاکوئی مستحکم نظام نہیں ہے جس کی بدولت یہاں کے مریضوں کو مکمل علاج مل سکے۔ خصوصی طور پر ہندوستان کے تمام دیہی علاقوں میں محکمہ صحت کی حالت نہایت ہی خستہ ہے۔ہمارے ملک کے پاس اتنی مشینیں موجود نہیں، جن کی بدولت کروڑوں لوگوں کا ٹسٹ کیا جائے۔ اس وقت احتیاطی تدابیر ہرفرد کے لیے ضروری ہے تاکہ اس وبائی بیماری سے پورے ملک کو محفوظ کیا جاسکے ۔
اگرملک کی داخلی صورت حال کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ یہاں کی اکثریت غریب و نادار طبقہ سے تعلق رکھتی ہے جو اعلی سطح کے اسپتالوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔اور اکثر نجی طبی مراکز پر ہی صحت کامعائنہ کرواتے ہیں، لیکن ان مراکزپر ان لوگوں کے لیے بہترعلاج موجود نہیں ہوتا۔ جموں وکشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کایہی حال ہے جہاں ضلعی سطح پر اب تک ایک اسپتال ’راجا سکھدیو سنگھ اسپتال‘ کے نام سے مشہور ہے۔اس میں بھی بڑے امراض کے علاج کے لیے کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ضلع پونچھ کے تمام سرحدی علاقوں میں ہند و پاک فوج کے مابین اکثر گولاباری کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس دوران یا کسی دوسرے حادثے میں شدید زخمی ہونے والوں کو فوری طور پرجموں میڈیکل کالج کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ضلع کی سرحد سے منسلک کئی گاؤں آباد ہیں جہاں ہزاروں کی آبادی ہے ۔ان علاقوں میں اگر محکمہ صحت کی جانب سے عوام کے لیے کوئی خصوصی نظام نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں کے عوام کے لیے حکومت کے خصوصی انتظامات کے تحت محکمہ صحت کی تمام تر سہولتیں فراہم کی جانی چاہیے تھی کیونکہ ان علاقوں میں اچانک فائرنگ شروع ہوجاتی ہےاور ضلعی اسپتال تک پہنچنے سے پہلے ہی اکثر زخمی دم توڑ جاتے ہیں۔
سرحدی گاؤں شاہ پورہ کے سماجی کارکن عبدالرشید اس حوالے سے کہتے ہیں ’’آئے روز اس سرحد پر لوگ فائرنگ کے دوران زخمی ہوتے ہیں اور بر وقت اسپتال پہنچنے میں انہیںدشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اکتوبر ۲۰۱۹ ءکو پاکستانی فائرنگ کے دوران گاؤں نونا بانڈی کی ۲۴ سالہ شمیمہ اختر زخمی ہوئیں اوربر وقت مکمل علاج نہ ملنے کی وجہ سے اس دنیا سے کوچ کرگئیں۔ ‘‘ وہ سرحدی علاقہ میں بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ یہاں کے تمام سرحدی علاقوں میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے زخمی افراد کو فی الفوراسپتال پہنچانا ممکن نہیں ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ متعدد جانیں فائرنگ کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہیں ۔اسی فائرنگ کے دوران 30 جولائی 2019 ء کو ضلع پونچھ کے سرحدی علاقہ شاہ پورہ میں 10 روزہ نومولود بچہ زخمی ہوا اوراسپتال پہنچتے ہی دم توڑ گیا۔اس نومولود بچے کی والدہ فاطمہ جان بھی اسی فائرنگ کے دوران زخمی ہوئی تھیں جو علاج کے بعد صحت یاب ہوئیں۔اس ضلع کے مختلف ایسے علاقے ہیں جہاں ابھی بھی کوئی طبی مرکزنہیں ہے ۔ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے نوجوان صحافی اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ صحت انسان کے لیے ہزار نعمت ہے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہاں کے عوام کو زکام اور بخار کی ادویات کے لیے بھی کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے ۔ صدر بازار سے تقریباً 15 کلومیٹر گاؤں موربن کے باشندے عرصہ دراز سے ان مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔گاؤں میں سڑک اور طبی مرکز نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو کاندھوں پراٹھا کراسپتال منڈی تک لے جانا پڑتا ہے۔‘‘ ضلع کے متعدد علاقوںمیں لوگ بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی کے سبب بہت سی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کیفیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر عام حالات میں محکمہ صحت کی صورت حال یہ ہے تو کسی وبا سے یہ ملک کیسے مقابلہ کرسکتا ہے؟اس کا فیصلہ قارئین خود کریں ۔موجودہ صورت حال میں کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ (چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *