NewsInKhabar

سڑک کے انتظار میں نسلیں گزر گئیں

قدیر اشرفی
 پونچھ، جموں و کشمیر
ذرا یاد کریں کہ بچپن میں آپ کو جب آپ کی کوئی پسندیدہ چیز نہیں ملتا تھا تو کیسا محسوس کرتے تھے۔ اگر اس کرب کا آج بھی احساس ہے تو آپ ان کا درد محسوس کر سکتے ہیں جن کی نسلیں سڑکوں کے انتظار میں گزر گئیں۔
راستہ انسان کو منزل مقصود تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہے۔ نہ صرف انسان بلکہ گھر میں پالے جانے والے حیوانی زندگیوں کے گزر بسر کرنے میں بھی ایک عظیم اہمیت کا حامل ہے۔ راستہ یا روڈ کی اسی اہمیت کی وجہ سے انسان جہاں بھی رہے، بسیے، یا قیام کرے راستہ کی فکر اسے پہلے سے ہی دامن گیر ہوتی ہے۔ قیام چاہئے مستقل ہو یا عارضی مسئلہ چاہئے شہر کا ہو یا دیہات کا،رہائش چاہئے محل کی ہو یا جھونپڑی کی، پیش نظر کھیت کھلیان ہو یا صنعت و حرفت۔روڈ کے بغیر کوئی پیش قدمی نہیں کی جاسکتی ہے۔بالخصوص پہاڑی علاقہ میں جو کہ ایک مسلمہ حقیقت ہے سڑک کی اس غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے یہ ہمیشہ ہی انسان کے لئے مرکز ِ توجہ رہا ہے۔ انسان کے ساتھ ساتھ اس نے عروج کو چھوتے ہوئے بحر وبحر سے بالا تر ہو کر آسمان کی فضاؤں میں اپنے قدم جما لئے ہیں، جس پر دن و رات ہزاروں طیارے دندناتے پھرتے ہیں۔موجودہ دور میں ہمارے ملک ہندوستان نے سڑک سے متعلق مستقل نظام کو وجود بخشا ہے اور اس سلسلہ میں کئی ایک شعبہ جات بنائے ہیں جن میں پی ایم جی ایس وائی ایک اہم نام ہے۔ حکومت کی اس پیش قدمی کو جہاں اکثریت نے سراہا ہے وہیں کچھ دیہی علاقوں میں آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ راستے اور سڑک کی اہمیت و ضرورت سے نا بلد ہیں۔ انہیں دیہی علاقوں میں ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کی سب سے چھوٹی پنچایت ملہان کا بھی ایک نام ہے۔ یہ پنچایت ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ہے، سی آر ایف، اس پنچائت کے سر سے ہو کر گزرنے کے باوجود سڑک تو دور پیدل چلنے کا بھی کوئی مستقل راستہ نہیں ہے۔ تقریباً۲۱۰۲ ء میں سہڑی خواجہ تا زیارت شریف میدان تک مزکورہ بالا محکمہ نے ارتھ کٹنگ کا کام شروع کیا تو یہاں کی عوام میں خوشی کی ایک کرن پھوٹ پڑی کہ اب ہمیں روز مرہ کی زندگی گزارنے میں راحت ہو گی۔ مگر ہائے کچھ اپنوں کی کرم فرمائیاں اور کچھ محکمہ کی ڈھلائیاں یہ سڑک تقریباً سات سے آٹھ سال کا وقت گزرنے جانے کے بعد بھی جوں کی توں پڑی ہوئی ہے۔

اسی سلسلہ میں مالکان اراضی سے جب بات کی گئی تو ان کا کہنا ہے کہ ہم نے روڈ کے لئے اپنے آشیانوں کو دے دیا، ہم نے سڑک کی خاطر لہلہاتے کھیت جھومتے درخت، ٹھنڈی اور خوشگوار فضا میسر کرنے والی ننھی کلیاں اور بہاروں بھرے گل، لچکتی شاخوں پر طیور چمنستانی کی دل آویز صدائیں دینے والے باغات ہم نے روڈ کے لئے قربان کر دیے، مگر افسوس کہ یہ قربانی اس وقت تک ہمیں رائیگاں جاتی نظر آ رہی ہے، محکمہ کے آفیسران یہاں آتے ہیں اور ہمیں یقین دہانیاں کروا کر چلے جاتے ہیں۔ مگر عملی طور پر کوئی کام آج تک نہ ہو سکا، اور اس وقت تک تقریباً انسٹھ کنال سات مرلہ اراضی کے ملکان اپنے معاوضہ کی فائلوں، کے منتظر بیٹھے ہیں جو سرکاری دفتار کی میز یا الماریوں کی رونق بنی ہوئی ہیں۔

سابقہ ایل جی جناب گریس چندر مرمو نے جو ضلعی دورہ کیا اس میں سڑک پر ہی چونکہ زیادہ زور دیا تھا،بایں وجہ اسی دن متعلقہ محکمہ کے چیف صاحب نے بھی اس روڈ کامعائنہ کیا، اور تنازعات کے حل کی شرط پر حسب سابق سڑک کو جلد وگزار کرنے کا وعدہ فرمایا۔ اسی سلسلہ میں متنازع جگہ کے متعلق محمد اقبال ولد بدر دین کہتے ہیں کہ”اب ہمارا فیصلہ کورٹ میں ہو چکا ہے، بس ہم محکمہ کے استقبال ہاتھوں میں پھولوں کی مالا لئے منتظر ہیں کہ کب مکمل مشنری کے ساتھ محکمہ پہنچے  اور ہم ان کی گل پوشی کریں“ وہیں مزکورہ پنچائت کے وارڈ نمبر پانچ کے پنچ نے بتایا”کہ یہ روڈ میری وارڈ سے متعلق ہے اس کے پنڈنگ ہونے کی وجہ سے میری وارڈ کے ساتھ پوری پنچائت کے بہت سے پنچائتی کام رکے پڑے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہماری پنچائت نے مرکز کی طرف سے چلائے گئے پروگرام بیک ٹو ولیج کے دوسرے مرحلہ کا با ضابطہ طور پر بائیکاٹ بھی اسی روڈ کی وجہ سے کیا مگر اس کا بھی کوئی خاص اثر نہ ہوا اور اب پنچائت کو حکام بالا سے گائڈ لائنز ایسی آئی ہیں کہ اے آئی وائی کے زمرہ میں آنے والا مکانات کو صرف تین ماہ میں مکمل کیا جائے، مگر سڑک نہ ہونے کی وجہ سے غریب عوام کیرج کو لیکر مجبور ہیں کہ اب کریں تو کیا کریں؟ مکان نہ بنائیں تو کھاتے میں آئی قسط پرسود سمیت واپس کرنا پڑے گا اور اگر بنائے تو سمپتی بیچ کر بھی صرف کیرج کی برپائی ناممکن ہے۔

اے آئی وائی کے ایک مستفاد عبدالخالق نے بتایا کہ اگر سڑک کا جلد حل نہیں ہوتا تو میں یہ فائدہ حاصل کرنے سے قاصر رہوں گا۔ وہیں چند اور لوگوں نے بھی یہی عذر پیش کرتے ہوئے پوری پنچائت کے راستے ہموار کرنے کی دھائی دی۔ مزکورہ سڑک سے منسلک محلہ پسوالہ اور محلہ دھکن کے اہلیان نے زندہ دلی کاثبوت دیتے ہوئے اپنے مابین چندہ کر کے ایک سڑک کی ارتھ کٹنگ کراوئی جو موجودہ موسم میں کسی خطرہ عظیمہ سے خالی نہیں ہے۔ لہذا ذمہ داران جو مسانید حکومت پر جلوہ بار ہیں ان سے امید کرتا ہوں کہ جلد اس پنچائت کی طرف توجہ دیں گئے اور یہاں جو راستے کی پیچیدگیاں ہیں انہیں با حسن و خوبی حل کریں گئے اور محکمہ پی ایم جی ایس وائی سے امید ہے کہ وہ بہت جلد سہڑی خواجہ تا زیارات شریف میدان تک تارکول بچھا کر عوام کے دلوں کو جیت لیں گئے اور یہاں کی عوام الناس کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔   (چرخہ فیچرس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *