جموں و کشمیر میں بھی پانی کو ترستے لوگ

سیدہ مبین بخاری، کھنیتر، پونچھ
جموں و کشمیر کو قدرت نے جہاں حسن اور خوبصورتی سے مالا مال کیا ہے، وہیں آبی ذخائر کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ پورے جموں و کشمیر کی اگر بات کی جائے تو بہت ہی کم علاقہ جات ایسے ہونگے جہاں پانی کے قدرتی ذرائع موجود نہ ہو ں۔ اکثر علاقہ جات میں باری تعالی نے صاف و شفاف پانی کے سیکڑوں ذرائع پیدا کیے ہیں۔ پہاڑوں کی کھوہ میں سے قدرتی طور پر پھٹنے والے چشموں کے پانی نہ صرف انسانی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں بلکہ ماہرین طب کی مانیں تو زمین کے اندر سے نکلنے والے یہ پانی انسانی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ شدید گرمی میں یہ چشمے ٹھنڈا پانی مہیا کرواتے ہیں اور کڑاکے کی سردی میں پانی اس طرح گرم ہوتا ہے جیسے قدرت نے
زیر زمین کوئی ایندھن جلا رکھا ہو۔
افسران مست عوام پست
جموں و کشمیر کے پہاڑوں سے نمودار ہونے والے بڑے بڑے دریاؤں کا پانی پڑوسی ریاستوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ہی پڑوسی ملک پاکستان کو بھی فیضیاب کر رہا ہے۔ ایک سال پہلے ریاست سے مرکز کے زیر انتظام خطہ میں تبدیل کیے گئے جموں و کشمیر میں موجود دریاؤں پر لگے پاور پروجیکٹ سے پیدا کی جانے والی بجلی ملک کی متعدد ریاستوں کو بھی روشن کرتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں جموں و کشمیر کے باشندوں کی محکمہ بجلی اور پانی کے تئیں ہمیشہ ناراضگی رہتی ہے؟ بالخصوص محکمہ جل شکتی کے کام کاج سے عوام بہت پریشان رہتے ہیں۔ آئے دن اخباروں میں پانی کی پریشانی کا کوئی کوئی نہ واقعہ دیکھنے کو ملتا ہی رہتا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ محکمہ کی عدم توجہی اور نا اہلی ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے جب محکمہ کی باگ ڈور ہاتھوں میں لیے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسرا ن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داری کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا ہے۔ اپنی ہی دھن میں مگن یہ شاہی افسران شاید اس کرسی کو اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے ہیں۔ مرضی آئے کام کریں، مرضی آئے کام نہ کریں۔
ماڈل گاؤں کا برا حال
ایک واقعہ جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے تحت ماڈل گاؤں کھنیتر کا ہے، جس کو سال 2012 میں اس وقت کی حکومت نے ماڈل ولیج کا درجہ دے کر عوام کے دل کو جیتنے کی کوشش کی تھی مگر گاؤں کو آج تک ماڈل بنانے میں کامیابی نہیں ملی۔ اس وقت کے کئی وزراء نے یک بعد دیگرے گاؤں کے دورے کر کے بڑے بڑے اعلان کیے تھے لیکن اتنا سب کچھ ہونے باوجود کھنیتر گاؤں کی حالت زار دیکھ کر کسی کو بھی رونا آئے گا۔ ترقی کتنے عروج پر ہے اس کی مثال کے لیے کھنیتر میں موجود واٹر لفٹ اسکیم ہی کافی ہے، جو کھنیتر کے مڈل اسکول ٹانڈہ کے پاس واقع ہے، جس کی تعمیر کو کئی سال ہوگئے ہیں۔ اس کے تحت گاؤں کے دور دراز علاقہ جات میں پانی پہنچانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔
لیکن عملاً اس لفٹ اسکیم سے اس وقت تک محکمہ صرف دو محلوں کے چند گھروں میں پانی پہنچا رہا ہے، افسوس تب ہونے لگتا ہے کہ محکمہ کی عدم توجہی اور نااہلی سے گزشتہ تقریباً ایک مہینہ سے زائد عرصہ گززر چکا ہے کہ موٹر خراب ہے، جس کو لیکر کئی متعلقہ آفیسران سے فون پر بھی بات کی گئی، بس یقین دہانیوں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔حالانکہ اس سلسلہ میں ایک خبر بھی شائع کروائی جس کا اثر یہ ہوا کہ محکمہ نے پانی والی موٹر کو زمین سے باہر تو ضرور نکال دیا لیکن نکال کر اس سے پھر رکھ دیا،خیر کچھ دن گزرنے کے بعد عینی شاہدین کے مطابق محکمہ کی گاڑی اس موٹر کو کہیں اُٹھا کر لے گئی ہے، جس کو لے جائے ہوئے کئی دن گزر گئے ہیں اب جبکہ عوام اس شش و پنج میں ہیں کہ آخر اس موٹر کو مرمتی کیلئے کسی باہر کے ملک برطانیہ یا امریکہ بھیجا گیا ہے یا پھر محکمہ نے کہیں خرد برد کر دی؟ عوام اس کا جواب چاہتی ہے کہ آخر اس موٹر میں اتنی بڑی خرابی کیسے آگئی جس کی مرمتی آج تک نہیں ہو سکی اورعوام پانی کو لیکر مسلسل پریشان ہیں؟ اسلئے محکمہ جل شکتی کے اعلی آفیسران کو چاہئے خدا راہ اپنے ذمہ داری کا احساس کریں اور شعبہ سے انصاف کرتے ہوئے متعلقہ متاثرہ وارڈ میں جلد پانی پہنچائیں۔
اس سلسلے میں جب مقای رخسانہ فردوس سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ”محکمہ کی لگاتار لاپرواہی کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں اور ایسا لگتا ہے محکمہ نے موٹر ٹھیک کرنے کیلئے کسی بیرونی ملک میں بھیج دی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہمارے محلہ میں متعلقہ محکمہ چند گھروں کے ساتھ ہمیشہ سے امتیازی سلوک کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے محلہ کی عوام سروں پر پانی اٹھاکر لانے پر مجبور ہے“۔وہیں اس سلسلے میں مقامی ندا ء الحق سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ”میں نے جب متعلقہ محکمہ کے اے ای ای سے بات کی تو انہوں نے کہاکہ جے ای سے اُس فیکٹری کا نمبر لیکر بات کرو جس میں موٹر ٹھیک کرنے کیلئے بھیجی ہے اور فیکٹری والو ں سے کہو کہ موٹر ٹھیک کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ جب اس سلسلہ میں متعلقہ جے ای سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ فیکٹری والوں کا نمبر میں ضرور دیتا مگر جب آپ فیکٹر ی میں بات کریں گے تو انہیں اچھا نہیں لگے گا“۔ وہیں جب مقامی نازیہ کوثر سے بات کی گئی تو انہوں سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ا اب محکمہ کی ہٹ دھرمی سے تنگ آ چکے ہیں“۔محکمہ جل شکتی کی لاپرواہی کو لیکر جب مقامی لوگوں نے وارڈ پنچ الحاج ذوالفقار علی سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ”میں نے متعلقہ محکمہ سے بات کی ہے اور اس سلسلے میں سیاسی لیڈران کو بھی بتایا ہے۔انہوں نے پانی کی مشکل کا ازالہ کرنے کیلئے مقامی عوام کو یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن آج ایک ماہ سے زائد کاعرصہ گزر چکاہے مگر صرف یقین دہانی ہی ہوئی، ازالہ نہ ہوا۔
جب اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ کے جے ای مکینیکل سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ ’ہم نے موٹر جموں ٹھیک کرنے کیلئے بھیجی ہوئی ہے ابھی واپس نہیں آئی اور میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ موٹر کب واپس آئے گی؟ ا نہوں نے مزیدکہا کہ میرا کام موٹر نکلوا کر بھیجنا ہے اورواپس آنے پر ڈالنا ہے“تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ محکمہ عوام کے کام کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتاتاہم قارئین کو بھی مقامی لوگوں کی مشکل اور متعلقہ محکمہ کہ ہٹ دھرمی کا اندازہ لگاناا ب زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ عوام کتنی مشکل میں ہے اور محکمہ کی پیش رفت کیا ہے۔
واضح رہے اس محلہ کی عوام سے محکمہ نے ہمیشہ ہی سوتیلی ماں کا سلوک کیا ہے جبکہ مقامی باشندوں کی مانیں تو ان کا کہنا ہے کہ آزادی ہند کے ستر سے زائد برس گزر جانے کے بعد بھی یہاں پانی کی متواطر سپلائی بحال کرنے میں محکمہ ناکام ہی رہا ہے۔اسلئے محکمہ جل شکتی کے اعلی آفیسران کو چاہئے کہ وہ کم از کم اپنے پاور کا ضرور استعمال کریں اور محکمہ کی شکتی کو با روئے کار لاتے ہوئے موٹر ٹھیک کروائے یا اس مسئلہ کا کوئی متبادل حل نکالیں تا کہ عوا م راحت کی سانس لیں سکیں۔(چرخہ فیچرس