مسلمان کیا کریں؟
ذیشان
اسمبلی الیکشن میں مسلمان کیا کریں، ایک اہم سوال بن گیا ہے۔ انہیں ریاستی اور قومی سطح کی بجائے مقامی سطح پر جیت کا فیصلہ کرنے میں اپنا رول نبھانا چاہیے۔
بہار اسمبلی انتخابات کے لیے تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے۔ سبھی سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی حیثیت اور طاقت کے حساب سے میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ اتوار یعنی ستائیس ستمبر کا دن اس لحاظ سے اہم رہا کہ حکمراں اتحاد کی بڑی جماعت جے ڈی یو نے ایک ہی دن میں ووٹ بینک کے دو طبقوں کو اپنی جانب کرنے کے مقصد سے مؤثر اقدامات کیے۔
اشوک چودھری کو بڑی ذمہ داری
تقریباً ڈھائی سال پہلے کانگریس چھوڑ کر جے ڈی یو میں شامل ہونے والے ڈاکٹر اشوک چودھری کو پارٹی کے قومی صدر نتیش کمار کی ایماء پر جے ڈی یو کا ریاستی کارگزار صدر بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر چودھری دلت چہرہ مانے جاتے ہیں۔ وہ دلتوں کے لیے کھڑے بھی ہوتے ہیں۔
گپتیشور پانڈے کی جے ڈی یو میں شمولیت
ایک دلت لیڈر کو جے ڈی یو کا ریاستی کارگزار صدر بنانے کے چند ہی لمحوں بعد ایک اعلی ذات کے شخص کو پارٹی کی رکنیت دلائی گئی۔ ان کا نام گپتیشور پانڈے ہے اور وہ پانچ دن پہلے ہی ڈی جی پی کے عہدے سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش ہوئے ہیں۔
مسلم کہاں ہیں؟
وزیر اعلی نتیش کمار نے انتخابی مہم کے تحت پچھلے دنوں جو ورچوئل ریلی کی تھی، اس میں ان کے نزدیک ایک بھی مسلم چہرہ نہیں تھا۔ ابھی بھی پارٹی کا جو تنظیمی ڈھانچہ ہے اس میں کوئی مسلم لیڈر نظر نہیں آ رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قومی سطح پر نتیش کمار نے اپنی تنظیمی ٹیم بھی نہیں بنائی ہے، اگر بنائی ہے تو اس کا پتہ بیشتر لوگوں کو نہیں ہے۔
مسلمان کیا کر سکتے ہیں؟
سیاست میں اقتدار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کہنے کو تو سبھی پارٹیوں اور لیڈروں کے اپنے اپنے نظریات ہوتے ہیں مگر وہ اتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ ان نظریات کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ البتہ ایسی صورت میں بھی وہ ایک نظریہ پر قائم رہتے ہیں۔ وہ نظریہ اقتدار کا ہے۔ اقتدار ملنا چاہیے، چاہے جیسے بھی ملے۔ ایسی صورت میں کیا بھارت اور فی الحال بہار کے مسلمان مقامی سطح پر امیدواروں کی ہار جیت میں اپنے رول کو یقینی بنانے کے لیے اقدام کر سکتے ہیں؟ اس کے لیے انہیں ریاست میں آئندہ بننے والی حکومت سے توجہ ہٹا کر اس بات پر اپنی طاقت صرف کرنی چاہیے کہ وہ کس امیدوار کو جتا سکتے ہیں۔ انہیں ہارنے والے امیدوار پر سے توجہ ہٹا کر جیتنے والے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ اس طریقے کو اپنانے سے کہیں مسلمانوں کے ووٹ سے بی جے پی کا امیدوار جیت سکتا ہے تو کہیں جے ڈی یو کا اور کہیں آر جے ڈی کا۔ بظاہر یہ ایک مشکل کام ہے لیکن تھوڑی سی محنت کرنے پر سب آسان ہو جائے گا۔ اس نسخے کو آزمائیں۔