لیکن گاندھی ہیں کہاں ؟
عبد الحمید نعمانی
بھارت میں جن معروف شخصیات اور علامتوں کا استعمال، نعرے اور برانڈ کے طورپر ہوتا رہا ہے ، ان میں گاندھی جی بہت نمایاں ہیں۔ موافق و مخالف دونوں ان کے نام کا استعمال اپنے اپنے مقاصد کے لیے برابر کرتے آرہے ہیں۔اس دوران 2014ءسے اب تک گاندھی جی کے نام کا استعمال کچھ مخصوص مقاصد و اغراض کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ گمان غالب یہ تھا کہ اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ، ناموں اور علامتوں میں بھی تبدیلی آئے گی ، تاہم ایسا عملاً ہو نہیں پارہا ہے۔سنگھ پریوار کے ایجنڈے اور نصب العین کے مطابق اس کے حصول کے لیے ہی سب کچھ ہورہاہے ، لیکن نام گاندھی جی کا استعمال کیا جارہا ہے۔
گولولکر اور ساورکر سے پرہیز
پوری دنیا میں بودھ ، گاندھی کو بھارت سے جوڑ کر کر پیش کیا جاتا ہے۔ ابھی تک کسی ہندوتووادی لیڈر میں ہمت و جرأت نہیں ہوئی ہے کہ گولولکر اور ساورکر کے حوالے سے بھارت کی نمائندگی کی جائے۔آج جبکہ بھارت مختلف طرح کے مسائل و مشکلات سے دو چار ہے تو وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی گاندھی جی کے نام کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے فکر و عمل میں ساورکر و گولولکر ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے 27 ستمبر 2020ء کو اپنے ایک بیان میں خود کفیل بھارت کے تناظر میں کہا کہ دو اکتوبر ہم سب کے لیے مقدس اور تحریک حاصل کرنے کا دن ہوتا ہے، قابل احترام باپو کے افکار و نظریات آج پہلے سے زیادہ اہم ہیں۔ مہاتما گاندھی کی جو معاشی فکر تھی ، اگر اس جذبے کے ساتھ چلے ہوتے تو آج خود کفیل بھارت مہم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں سرکار جس راہ پر گامزن ہے ، اس پر چل کر کیا گاندھی جی کے سپنوں کا بھارت وجود میں کبھی آسکتا ہے ؟
گاندھی جی کی فکر
گاندھی جی کے تعلق سے معاشی فکر سے زیادہ ،تہذیبی وسماجی فکر پر مبنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پر امن بقائے باہم و عدم تشدد کی راہ پر چلنے کی بات اہم ہے۔ سب سے قابل توجہ مسئلہ ، گاندھی جی کے حوالے سے ہندستانیت کی سمجھ اور صحیح تفہیم و تعبیر ہے۔ گاندھی جی کی معاشی فکر اور اس کے مطابق ان کا جو کردار و عمل تھا ، اس کی جھلک تو بھارت میں خصوصاًبھارتیہ جنتا پارٹی اور موجودہ سرکار کے کاموں اور اقدامات میں کہیں نظر نہیں آرہی ہے ۔
زرعی قوانین
گاندھی جی کے فکرو عمل میں اشتراکیت اور سرمایہ داری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کسانوں اور مزدوروں کے متعلق مودی سرکار کی جو پالیسیاں اور کام ہیں اور ان کے لیے جس قسم کے قوانین بنائے گئے ہیں، وہ گاندھی جی کی معاشی فکر اور ان کے اختیار کردہ طرز عمل کے پوری طرح منافی و مخالف ہیں۔ صرف گاندھی جی کے نام اور کچھ مبہم باتوں کے حوالے سے خود کفیل بھارت کی تعمیر و تشکیل نہیں ہوسکتی ہے۔ واضح طور پر بتانا ہوگا کہ گاندھی جی کی معاشی فکر اور اس کے مطابق ان کا طرز عمل کیا تھا۔ وہ کس طرح کا سپنوں کا بھارت اور خود کفیل ہندستان بنانا چاہتے تھے اور اس کے لیے کس طرح کے طریق کار اپنانے کے لیے دعوت دیتے تھے ؟
گاندھی صرف ایک نام نہیں
گاندھی جی صرف ایک نام اور نعرہ نہیں ہیں بلکہ ایک مخصوص طرح کی فکر و عمل سے بھی عبارت ہیں، جس کو دیس، سماج اور عوام کی زندگی میں اتارنا کوئی آسان نہیں ہے۔ ہاں امن پسندی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے اور ساتھ ساتھ رہنے کی دعوت اور عمل سے کر دکھانے کا جذبہ، بلا شبہ بھارت کو گاندھی جی کے سپنوں کا بنا سکتا ہے اور اس کی کثرت میں وحدت اور تکثیری سماج کی تشکیل میں بڑ ارول ادا کر سکتا ہے۔
دوری اور نزدیکی
بہت سے ہندو تووادی گاندھی جی کو بھارت کے لیے لعنت قرارد یتے ہیں، بیشتر کانگریسیوں تک نے ان کو نظر اندازکردیا۔ سنگھ پریوار نےخود کو ان سے الگ کر لیاہے۔ البتہ صرف کچھ باتوں کو ، اصل مقاصد کو نظر انداز کر کے اپنے مقاصد و اغراض کی تکمیل کے لیے سامنے لاتا رہا ہے۔ گاندھی جی کے سلسلے میں بہت کچھ بولا اور لکھا جاسکتا ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات بھارت سرکار کی طرف سے سو جلدوں میں ان کی کلیات شائع ہوچکی ہے۔ اس میں ہر موضوع سے متعلق خاصا مواد موجود ہے۔ ملکی، غیر ملکی مصنفین اور تحقیق کاروں نے الگ الگ عنوانات و مو ضوعات پر لٹریچر کا بڑا ذخیرہ تیار کر دیا ہے۔
گاندھی جی کے مختلف روپ
گاندھی جی کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ کوئی کچھ بھی کہہ کر اپنا مطلب حاصل کرتا ہوا نکل جائے۔ ان کے مختلف روپ ہمارے سامنے ہیں، بیرسٹر، بنیا، بھکاری ، باورچی، پروہت ، صحافی ، مصنف ، معلم ، چرخہ چلانے والا ، ڈاکٹر ، ملازم ، موچی ، نائی ، مہتر، دھوبی ،نرس ، جرنیل اور کسان ، ہر روپ میں گاندھی جی کو دکھانے کا کام ہوا ہے۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو مختلف روپ میں پیش کیا ہے ۔ تندولکر نے کئی جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب مہاتما میں گاندھی جی کو بابائے قوم ، معمار وطن اور مجاہد آزادی کے علاوہ بھی مذکورہ بالا روپوں کو منظر عام پر لانے کا کام کیا ہے۔ اس سے منتخب کر کے انو بندھو پادھیائے نے یکجائی طور سے ’’گاندھی جی کے مختلف روپ‘‘مرتب کیا ہے۔
گاندھی جی کی ضرورت
آج کی تاریخ میں گاندھی جی کے اقتصادی و معاشی نظریہ پر وسیع تر تناظر اور ملک کے مفاد میں غورو فکر اور بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔ گاندھی جی کا ایک روپ کسان کا بھی ہے ۔ آج یہ بڑا سوال ہمارے سامنے ہے کہ کیا کسان کو اس کی پیداواری کی واجب قیمت مل رہی ہے اور اس کے حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہے ؟جواب ظاہر ہے کہ اثبات میں دینا آسان نہیں ہے۔ گاندھی جی کے معاشی فکر و فلسفے میں استحصالی سرمایہ داری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور کسانوں کو بھارت کے زراعتی نظام میں بنیادی مقام اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ کسان دنیا کا ان داتا ہے۔ خدا دینے والا اور کسان ا س کا ہاتھ ہے۔ وہ پورے دعوے سے کہا کرتے تھے کہ کسانوں کو غربت اور جہالت سے نجات ملنے پر ہی بھارت کی آزادی کا انحصار ہے۔ آبادی کا 75 فیصد سے زیادہ حصہ زراعت پیشہ ہے۔ وہی اس زمین کو ہرا بھرا بنائے ہوئے ہیں۔زمین کا اصلی مالک کسان ہی ہے نہ کہ وہ زمین دار جو ہمیشہ کھیتوں سے دور رہتا ہے۔
ساری زمین گوپال کی
گاندھی جی کا نظریہ ہے کہ سب زمین گوپال کی ہے۔ اصلاً گوپال (مالک ) خدا ہے اور اس کے توسط و عطا سے کسان زمین کا مالک اور گوپال ہے۔ اس تعبیر و تشریح سے سنگھ پریوار سے وابستہ مؤرخ پروفیسر ستیش چندر متل کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ گاندھی جی کہتے تھے کہ اگر ہم کسانوں کی محنت کا سارا پھل ان سے چھین لیں تو عوام کی حکومت نہیں ہوسکتی۔ وہ کھیتی کے لیے ٹریکٹروں کے استعمال کو پسند نہیں کرتے تھے کہ ایک ٹریکٹر سے سیکڑوں آدمی بے کار ہوجاتے ہیں ۔ انہیں ڈر تھا کہ مشین کے استعمال سے کسانوں کی تخلیقی صلاحیت کم ہوجائے گی۔ انو بندھو اپادھیائے نے لکھا ہے کہ گاندھی جی کے نزدیک ہر کسان الگ الگ ہل بیل گاڑی رکھے یہ سب فضول خرچی ہے۔ وہ مشترک چرا گاہوں کے حق میں تھے۔ جانوروں سے اکثر فائدہ کم ہوتا ہے اور انہیں کھلانا پلانا زیادہ پڑتا ہے۔ گاندھی جی کو ہمیشہ فکر رہی کہ غریب کسانوں کی آمدنی میں کس طرح اضافہ کیا جائے۔ ایسے کسانوں کی آمدنی اس حد تک بڑھانا چاہتے تھے کہ وہ اپنے غذا، کپڑے ، مکان ، تعلیم کا معقول بندو بست کر سکیں۔ گاندھی جی دیہاتوں میں چمڑے کی صنعت کے حق میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صنعت اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ قدیم بھارت۔ گاندھی جی کا معاشی تصور بہت وسیع تھا، جس میں سب کے لیے گنجائش اور جگہ ہے، لیکن موجودہ وقت میں سرکاری پالیسیوں میں بہت سی صنعتوں اور کاموں کے لیے کوئی جگہ نظر نہیں آتی ہے ، وہاں گاندھی بھی کہاں ہیں ؟پھر وزیر اعظم کے بہ قول گاندھی جی کے نظریات پر عمل کیسے کیا جاسکتا ہے ؟
بشکریہ: انقلاب