یہ سمجھنا بہت ضروری ہے
ایم ودود ساجد
قانون اور اس کی پیچیدگی کے ساتھ ہی عدالت اور حکومت کو سمجھنا ضروری ہے۔
میں تازہ قانونی پیش رفت کی جب مختصر خبر دیتا ہوں تو وہ بس محض قانونی نقطہ نظر کے اعتبار سے اتنی ہی خبر ہوتی ہے جتنی ہونی چاہیے۔ اس پر میرا کوئی منفی یا مثبت تبصرہ نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تفصیلی پوسٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو میں حسب ضرورت لکھتا بھی ہوں۔
کچھ احباب بجا طور پر مختلف تشویشات کا اظہار کرتے ہیں۔ گوکہ ان تشویشات کے اظہار میں بعض اوقات درست معلومات کی کمی ہوتی ہے تاہم ان کی نیت درست ہوتی ہے۔ متھرا میں شاہی عیدگاہ اور کرشن جنم استھان کا قضیہ بھی اسی قبیل کا ہے۔
یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 6 دسمبر 1992ء کو جب بی جے پی، وی ایچ پی اور شوسینا کے شرپسندوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا تو شرپسندوں کے روحانی سردار نرسمہا راؤ نے مسلمانوں اور انصاف پسند ہندوستانی عوام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کابینہ سے ایک قانون منظور کرا دیا تھا۔ اس کی رو سے 15 اگست 1947 کو جس عبادتگاہ کی جو پوزیشن تھی اس میں قانوناً چھیڑ چھاڑ کی ہر گنجائش ختم کردی گئی تھی۔
البتہ بابری مسجد کے قضیہ کو (سیاسی شرارت یا قانونی ضرورت کے تحت) اس ایکٹ سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ گزشتہ روز متھرا کی سول کورٹ نے اسی قانون کی بنیاد پر شرپسندوں کی وہ رٹ خارج کردی جس کے تحت وہ بابری مسجد کی طرح شاہی عیدگاہ کو بھی کرشن جنم استھان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس عیدگاہ سے متصل کرشن مندر ہے۔
متھرا کی سول کورٹ نے جو کیا اس پر مختلف تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ ہم اپنے منہ اور قلم سے وہ بات کیوں کہیں جو شرپسند چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل انتہائی غلط ہے۔ قانونی پیش رفت پر ابھی سے اتنے آگے کی بات کہنا خلاف مصلحت ہے۔ رہی بات آمروں کی تو آمروں اور ظالموں کے ہاتھ اسی وقت رکتے ہیں جب پورا ملک مل کر ان کے خلاف کھڑا ہوجائے۔ یہ اس وقت ممکن نظر نہیں آتا۔
سپریم کورٹ کے ذریعہ آرٹیکل 142 کا استعمال اسی وقت ہوتا ہے جب ثبوت و شواہد تو بالکل واضح ہوں لیکن معاملہ بہت دور رس نتائج کا حامل ہو اور خود عدالت بوجوہ کچھ اور چاہتی ہو۔ آئین میں یہ اختیار موجود ہے۔ گوکہ یہ بہت خطرناک اختیار ہے، لیکن ہم سب تو بغیر مطالعہ کیے ہی “بھیم راؤ بابا صاحب امبیڈکر” کے بنائے ہوئے آئین پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔
متھرا یا بنارس والے معاملہ میں ایک قانون موجود ہے۔ سپریم کورٹ کی وہی 5 رکنی آئینی بنچ اس کی توثیق کر چکی ہے جس نے بابری مسجد کے قضیہ کا آرٹیکل 142 کے تحت فیصلہ صادر کیا تھا۔ اب یہ قانون اسی وقت بدل سکتا ہے جب خود سپریم کورٹ کی 7 رکنی بنچ اسے کالعدم قرار دیدے۔ بظاہر یہ اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ یہاں آرٹیکل 142 کے استعمال کا امکان خود سپریم کورٹ نے ہی ختم کردیا ہے۔ اب یوں کرنے کو یہ حکومت کچھ بھی کرسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر مسلمان کیا کریں ؟ کیا کسی کے پاس اس سوال کا کوئی معقول اور مؤثر و مسکت جواب ہے؟