NewsInKhabar

بابری مسجد : سازش میں تو تم بھی شریک تھے

ایم ودود ساجد

(464 سالہ بابری مسجد کا 107سالہ قضیہ)
پہلی قسط

بابری مسجد کے قضیہ پر پچھلے 70 برسوں میں اور خاص طورپر آخری 34 برسوں میں جتنا لکھا گیا ہے اتنا شاید ہی آزاد ہندوستان میں کسی اور موضوع پر لکھا گیا ہو۔ شمالی ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے قصبہ ایودھیا میں 1528ء میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد 464 سال تک قائم رہی لیکن اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ وہاں حکومت ہند کی فعال شمولیت کے ساتھ رام مندر کی تعمیر شروع ہوگئی ہے۔ اس مندر کا سنگ بنیاد وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020ء کو خود رکھا تھا۔ شاید یہ اس کا جواب تھا کہ جس طرح 1528ء میں شہنشاہ بابر (کے کمانڈر میر باقی) نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی تھی اسی طرح ٹھیک 492 سال بعد 2020ء میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔

بابری مسجد اور رام مندر کا فرق

لیکن یہاں ایک بڑا فرق ہے۔ یہ فرق ہمیشہ تاریخ کے صفحات میں درج رہے گا اور آنے والی نسلیں یہ جانتی رہیں گی کہ شہنشاہ بابر نے 1528ء میں جو مسجد بنائی تھی اس کے کسی مندر کو توڑ کر بنانے کا کوئی ثبوت سپریم کورٹ تک کو نہیں ملا تھا جبکہ نریندر مودی نے جس رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا تھا وہ یقینی طور پر ایک مسجد کو توڑ کر بنایا گیا تھا۔ یہ مسجد 6 دسمبر 1992ء کو دن کے اجالے میں بی جے پی، بجرنگ دل، وی ایچ پی اور شو سینا کے ہزاروں کارسیوکوں نے منہدم کردی تھی۔ اس موقع پر بی جے پی کے تین درجن سے زائد ممتاز لیڈر بھی وہاں موجود تھے اور کارسیوکوں کو جوش دلا رہے تھے۔ ان میں رام مندر تحریک کے سرخیل لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، اشوک سنگھل، ونے کٹیار اور وشنو ہری ڈالمیا بھی شامل تھے۔

عدالت کا فیصلہ

تاریخ یہ بھی یاد دلاتی رہے گی کہ جس طرح مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہ ملنے کے باوجود اور بابری مسجد کی زمین کی ملکیت ہندوؤں کے حق میں ثابت نہ ہونے کے باوجود ملک کی سب سے اعلی عدالت سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین کو رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندؤں کے حوالہ کردیا تھا اسی طرح مسجد کے انہدام کے 28 سال بعد 2020ء میں لکھنؤ میں سی بی آئی کی اسپیشل عدالت نے مذکورہ تمام ملزمین کو (اور تاریخ کی نظر میں مجرمین کو) سازش اور انہدام کے ہر الزام سے بری کر دیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ بابری مسجد کے ساتھ ناانصافی کے عمل میں فیض آباد اور لکھنؤ کی مقامی عدالتوں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بھی برابر شامل رہی۔ اس ضمن میں الہ آباد ہائی کورٹ کو قدرے مستثنی رکھا جاسکتا ہے۔ تاریخ بتائے گی کہ مقامی عدالتوں اور سپریم کورٹ سے ہزار درجہ بہتر فیصلہ تو الہ آباد ہائی کورٹ نے ہی کر دیا تھا۔ اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔ لیکن اس نکتہ پر مؤرخ یہ سوال بھی اٹھائے گا کہ (گو کہ خود ہندو فریق بھی اس فیصلہ سے مطمئن نہیں تھا) حکومتوں، عدالتوں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی شرپسندی سے واقف ہو جانے کے باوجود بابری مسجد کا فریق کیوں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر اکتفا نہ کرسکا۔

نئی نسل

آئیے اب ذرا دوسری طرف رخ کرتے ہیں۔ ہندوستان میں اس وقت (2020ء میں) سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نوجوانوں کی آبادی 34.33 فیصد ہے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت جن کی عمریں 30 تا 35 برس ہیں انہیں بھی بابری مسجد کے قضیہ اور اس کے انہدام کا کچھ زیادہ اندازہ نہیں ہوگا۔ پھر 1992ء میں الیکٹرانک میڈیا بھی اس پیمانہ کا نہیں تھا۔ ذرائع ابلاغ بھی وسیع تر نہیں تھے۔ زیر نظر مضمون کی دوسری قسط میں لکھنؤ کی عدالت کے تازہ فیصلہ کا بھی جائزہ لیا جائے گا لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصر ہی سہی دور حاضر کی نسلوں کے لیے ایک سلسلہ وار ٹائم لائن بیان کر دی جائے۔

پہلی معلوم سازش

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا بابری مسجد کی تعمیر شہنشاہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے 1528ء میں کی تھی۔ اس مسجد میں 421 سال تک باجماعت نماز ادا ہوتی رہی۔ تین صدیوں کے بعد سخت گیر عناصر نے مسجد کے خلاف سازش شروع کر دی لیکن پہلی معلوم سازش 1885ء میں رونما ہوئی۔ مسجد کی تعمیر کے 357 برس بعد مہنت رگھوبیر داس نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں ایک درخواست دائر کی اور بابری مسجد کے احاطہ کے باہر ایک سائبان بنانے کی اجازت مانگی۔ لیکن ضلع عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔1885 میں ہندوستان کے انتظام و انصرام پر مکمل طورپر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ عدالت کے ذریعہ ہندوؤں کی درخواست کو مسترد کرنے کی وجہ لازمی طور پر قانونی استدلال کی کمی تھی۔ عدالت کو ہندوؤں کا کوئی مالکانہ حق نہ بابری مسجد پر نظر آیا ہوگا اور نہ ہی اس کے باہر کے حصہ پر۔

انگریزوں پر ہندو مسلم آبادی کو آپس میں لڑانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ لیکن یہاں انگریزوں نے اس موقع کو استعمال نہیں کیا اور ہندوؤں کے دعوے کو بے بنیاد پاکر اس درخواست کو مسترد کردیا۔ مسجد کے احاطے کے باہر سائبان کی تعمیر کی درخواست یقینی طوپر ایک سازش کے تحت ہی کی گئی تھی لیکن انگریزوں نے سازش کے اس موقع کا استعمال نہیں کیا۔ اس سازش کے 64 سال کے بعد اور ملک کی آزادی کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ہندوؤں نے پھر ایک بڑی سازش کی اور 23 دسمبر 1949ء کی شب 50-60 لوگوں نے بابری مسجد کی دیوار پھاند کر مرکزی محراب میں رام کی مورتی رکھ دی۔ اس سے پہلے اکھل بھارتیہ راماین مہاسبھا نے بابری مسجد کے باہر 9 دنوں تک بغیر کسی وقفہ کے راماین کا پاٹھ پڑھنے کا پروگرام منعقد کیا اور آخری دن وہ حرکت انجام دے دی، بالکل اسی طرح جس طرح 43 سال بعد 1992ء میں پہلے علامتی کارسیوا کے نام پر ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور پھر بابری مسجد کو منہدم کردیا۔

چوری چھپے مورتی رکھنے کے چند ہفتوں بعد 1950ء کے اوائل میں فیض آباد کی عدالت میں دو درخواستیں دائر کی گئیں۔ گوپال سملا وشارد نے بابری مسجد کے اندر چوری سے رکھی اس مورتی کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی جبکہ پرم ہنس رام چندر داس نے پوجا کے تسلسل اور مورتی کو نہ ہٹائے جانے کا مطالبہ کیا۔ اس کے 9 سال بعد نرموہی اکھاڑا نے بابری مسجد کو اس کے حوالہ کیے جانے کے لیے درخواست دائر کی۔

تئیس دسمبر 1949ء کو بابری مسجد میں آخری بار عشاء کی نماز باجماعت ادا ہوئی تھی۔ اس کے بعد پھر اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی جاسکی، اور پھر 43 سال بعد اس کی شہادت واقع ہوگئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1885ء سے 1992ء تک یعنی کل 107 سال تک سازش کے علاوہ بھی کچھ ہوا؟

انیس سو اکسٹھ میں یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ نے بابری مسجد کو اس کے حوالہ کیے جانے کی درخواست عدالت میں دائر کی۔ درخواست گزار کے طور پر ہاشم انصاری پیش ہوئے۔ فیض آباد کی ضلع عدالت میں یہ مقدمہ 36 سال تک چلتا رہا اور فروری 1986ء میں اچانک عدالت نے بابری مسجد کا تالا کھول کر اسے پرستش کے لیے ہندؤں کے حوالہ کیے جانے کا فیصلہ کر دیا۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح غلام ہندوستان میں 1885ء میں انگریزوں کے تسلط کے دوران اسی فیض آباد کی عدالت نے ہندو فریقوں کی عیاری پر مبنی دائر درخواستوں کو مسترد کرکے ایک بڑی سازش کو ناکام بنادیا 1950ء سے 1986ء  تک آزاد ہندوستان میں (کانگریس حکومت کے دوران) فیض آباد کی اسی عدالت نے کیوں معاملہ کو اتنا طول دیا اور کیوں آخر کار اس سازش کو کامیاب کر دیا۔ اس سوال کا جواب شاید اس سوال کے اندر پوشیدہ مل جائے کہ 23 دسمبر 1949ء کی شب چوری چھپے مورتیاں رکھنے ہی کیوں دی گئیں اور جب وہاں پچھلے نو دنوں سے سخت گیر ہندؤں کا راماین پاٹھ پروگرام چل رہا تھا تو انتظامیہ اور حکومت نے حفظ ماتقدم کے تحت کوئی سخت انتظام کیوں نہیں کیا؟

اسی سے وابستہ سوال یہ ہے کہ جب 1528ء سے 1949 تک وہاں نماز باجماعت ادا ہو رہی تھی تو انتظامیہ اور حکومت نے چوری چھپے مورتیاں رکھنے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی؟ کیوں مسجد میں تالہ لگایا گیا اور کیوں مسلمانوں کو وہاں نماز پڑھنے سے محروم کیا گیا؟چوری چھپے مورتی رکھنا ایک مجرمانہ عمل تھا لیکن اس مجرمانہ عمل کو جاری رکھنا حکومت کا اس سے بڑا مجرمانہ عمل تھا۔۔ کیا اس عمل میں کانگریس کے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی شمولیت نہیں تھی؟

بہر حال فروری 1986میں مقامی عدالت کا فیصلہ آتے ہی مسجد کا تالہ کھول دیا گیا۔اس وقت یوپی میں کانگریس کے ویر بہادر سنگھ وزیر اعلی تھے جبکہ ملک کے وزیر اعظم راجیو گاندھی تھے۔آخر اس فیصلہ کے خلاف فوری طورپر حکومت کیوں ہائی کورٹ نہیں گئی؟ کیوں ہنگامی حکم کی درخواست نہیں کی گئی؟اس کے بر خلاف سرکاری ٹیلیویزن دور درشن پر اس فیصلہ کی خوب تشہیر کی گئی اور وہاں ہندؤں کو پوجا کیلئے ساری آسانیاں فراہم کی گئیں۔۔پورے ملک سے ہندوؤں نے وہاں جانا شروع کردیا۔اگست 1989 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کا حکم دیا۔۔ یعنی مسلمان بابری مسجد سے دور رہیں اور ہندو بدستور پوجا کرتے رہیں۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بابری مسجد کا تالہ کھلنے کے بعد مسلمانوں کی طرف سے سیاسی اقدام کی تحریک مرکزی طور پر دہلی سے شروع ہوئی۔اس تحریک میں چند نام بہت بڑے تھے۔ مثال کے طورپر سید شہاب الدین، شاہی امام عبداللہ بخاری، ابراہیم سلیمان سیٹھ، غلام محمود بنات والا اورسلطان صلاح الدین وغیرہ۔ اس کے علاوہ دوسری سطح کے مسلم لیڈر بھی اس تحریک سے وابستہ ہوئے۔ ان میں ظفر یاب جیلانی، قاسم رسول الیاس، جاوید حبیب وغیرہ تھے۔ لیکن دوسری جانب تالہ کھلنے، پوجا شروع ہونے اور ہائی کورٹ سے “اسٹیٹس کو” کے حکم کے باوجود بی جے پی نے اس تحریک کو مزید آگے بڑھایا۔

راجیو گاندھی کے خلاف ان کی جماعت کے وشوناتھ پرتاپ سنگھ جب الگ ہوکر سیاسی میدان میں آئے تو ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ایک طرف جہاں بایاں محاذ تھا وہیں بی جے پی بھی تھی۔ بی جے پی کے پاس اس وقت تک لوک سبھا میں صرف دو سیٹیں (اٹل بہاری باجپائی اور ایل کے اڈوانی کی) ہوا کرتی تھیں۔ لیکن وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی عنایت اور رام مندر تحریک کے سبب بی جے پی دو سے 88 سیٹوں تک پہنچ گئی۔ اڈوانی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے مطالبہ کو لے کر 25 ستمبر 1990 کو سومناتھ سے رتھ یاترا لے کر نکلے اور پھر جہاں جہاں گئے فسادات کی ایک خونی لکیر چھوڑتے چلے گئے۔ وہ ایک دن میں 300 کلو میٹر کا سفر کرتے اور کم سے کم 6 جلسوں کو خطاب کرتے۔ اس رتھ کو صرف بہار میں جاکر بریک لگا جب اس وقت کے وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے اڈوانی کو سمستی پور میں گرفتار کرکے دہلی واپس بھیج دیا۔

ادھر مسلمانوں کی تحریک بھی عروج پر تھی۔ شاید آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دہلی کے بوٹ کلب پر لاکھوں مسلمان پہلی بار جمع ہوگئے تھے۔ لیکن اسٹیج پر مسلم قائدین ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوگئے اور مسلمانوں کی بنی بنائی ہوا اکھڑ گئی۔ سید شہاب الدین اور شاہی امام دونوں اپنی گرم طبیعت کو اعتدال میں نہ رکھ سکے۔ اڈوانی کی تحریک بڑھتی چلی گئی اور ان کے ساتھ کئی سخت گیر تنظیمیں بھی جڑ گئیں۔

اکتوبر 1990ء میں سخت گیر کار سیوکوں نے بابری مسجد پر چڑھ کر اسے منہدم کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت یوپی میں ملائم سنگھ کی حکومت تھی۔پولس نے گنبد پر چڑھے ہوئے کارسیوکوں پر گولی چلائی اور ایک درجن سے زائد ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد 1991ء کے الیکشن میں بی جے پی حکومت میں آگئی، کلیان سنگھ یوپی کے وزیر اعلی بنے اور شرپسندوں کی بہار آگئی۔ انیس سو بیانوے میں مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن وہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت کو بابری مسجد کے خلاف منصوبے کو آگے بڑھانے سے روکنے میں ناکام رہی۔ اس وقت وزیر اعظم نرسمہا راؤ تھے۔ رام مندر کی تحریک اب نکتہ ارتکاز پر تھی۔

دسمبر 1992 میں ایودھیا میں ہزاروں کارسیوکوں کو جمع کرکے پھر کارسیوا کا پروگرام بنایا گیا۔نرسمہاراؤ کو اپوزیشن سمیت خود ان کی پارٹی کے لوگوں نے بھی متنبہ کیا۔ یہاں تک کہ قومی یکجہتی کونسل National Integration Council کی میٹنگ میں نرسمہا راؤ سے کہا گیا کہ وہ یوپی حکومت کو برخاست کردیں کیونکہ انٹلی جنس رپورٹوں کے مطابق بھی شرپسندوں کے عزائم اچھے نہیں ہیں اور یوپی حکومت فعالیت کے ساتھ انہیں راہ دے رہی ہے۔ اسی دوران معاملہ سپریم کورٹ میں گیا اور بی جے پی/وی ایچ پی کی کارسیوا کو روکنے کی گزارش کی گئی۔ عدالت نے تمام تر اندیشوں کے باوجود یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ کے اس حلف نامہ پر یقین کرکے محدود کارسیوا کی اجازت دے دی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ محض علامتی کارسیوا ہوگی اور حکومت مسجد کو کوئی گزند نہ پہنچنے دے گی۔

ادھر قومی یکجہتی کونسل نے نرسمہا راؤ سے کہا کہ وہ بابری مسجد کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں اور یوپی حکومت پر بھروسہ نہ کریں۔ نرسمہا راؤ نے کہا کہ ہنگامی حالات سے نپٹنے کے لیے ہماری تیاری پوری ہے اور پیرا ملٹری فورسز پوری طرح تیار ہیں۔ 5دسمبر 1992 کو لکھنؤ میں ونے کٹیار کے گھر پر بی جے پی لیڈروں کی میٹنگ ہوئی جس میں (سی بی آئی کی چارج شیٹ کے مطابق) یوپی کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تعمیر پر پابندی لگائی ہے توڑ پھوڑ پر نہیں۔ 6دسمبر کو صبح سے ہی ان تمام لیڈروں نے مائک پر نفرت انگیز تقریریں کرنی شروع کردی تھیں اور کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھایا جارہا تھا۔ آخر کار کارسیوک مسجد کے گنبدوں پر چڑھ گئے اور کدالوں سے توڑنے لگے، بعد میں رسیاں باندھ کر گنبدوں کو گرا دیا گیا۔ چند گھنٹوں میں ہی 464 سال پرانی مسجد کو زمیں بوس کر دیا گیا اور وہاں رام للا کو بٹھاکر میک شفٹ (عارضی مندر) بنا دیا گیا۔ اسی رات وہاں بھجن کیرتن بھی شروع کردیا گیا۔

پورا ملک دیکھتا رہا۔ حکومت دیکھتی رہی۔۔۔ وزیر اعظم دیکھتے رہے۔۔۔۔ اور سپریم کورٹ بھی دیکھتا رہا۔۔۔ تمام وعدے اور حلف نامے دھرے کے دھرے رہ گئے۔۔۔ اپوزیشن سمیت متعدد لیڈر اور مسلم قائدین چیختے رہے لیکن پہلے گنبد کی شہادت سے آخری اینٹ کے گرنے تک نرسمہاراؤ خاموشی سے دیکھتے رہے۔۔ وہ چاہتے تو سریع الحرکت کارروائی کرکے ٹوٹی پھوٹی بابری مسجد کو بکھرنے سے بچاسکتے تھے۔۔ان کی بھیجی ہوئی فورس کوئی زیادہ دور نہیں تھی۔۔۔لیکن انہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور بابری مسجد کو مکمل طور پر شہید ہوجانے دیا۔

میرا موقف یہ ہے کہ بابری مسجد کے خلاف سازش تیار کرنے میں ایک طرف جہاں ہندو جماعتوں سے لے کر بی جے پی تک سرگرم عمل تھی وہیں پنڈت جواہر لعل نہرو، راجیو گاندھی اور نرسمہاراؤ بھی اس سازش کا متحرک حصہ نہ سہی تو خاموش حصہ ضرور تھے۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *