NewsInKhabar

کشمیر کابدحال مواصلاتی نظام اور پریشان حال عوام

چودھری محمد ایوب کٹاریہ
کپواڑہ، کشمیر
کہتے ہیں کہ جو انسان وقت کے ساتھ نہیں چلتا ہے اسے وقت بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان وقت کے تقاضوں کا پورا خیال رکھے اور دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے تاکہ زمانہ بھی اسے پیچھے دھکیلنے کے بجائے اپنے ساتھ لیکر چلے اور اسے پھلنے اور پھولنے کا موقع فراہم کرے۔ موجودہ دور میں مواصلاتی نظام جس برق رفتاری کے ساتھ چل رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور میں اس وقت تک ترقی ممکن ہے جب انسان کے پاس مواصلاتی نظام کا مکمل بندوبست نہ ہو۔ حالانکہ یہ بھی ایک سچ ہے کہ مواصلاتی نظام کا بندوبست کرنا حکومت اور نجی کمپنیوں کی اہم ذمہ داری ہے ۔ لہذا حکومت کو بنا کسی بھید بھائو کے ہر شہری کے لیے مواصلات کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے ، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ جب ہم نظردوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ الگ الگ ریاستوںکے الگ الگ خطے کے مواصلاتی نظام میں بڑا فرق ہے۔
جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں کا جائزہ لیا جائے ، تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں مواصلاتی نظام بالکل بدحال اور یہاںکی عوام بے انتہاپریشان ہے۔ اس تناظر میں تنویر احمد دیدڑ نامی ایک تعلیم یافتہ نوجوان سے جب گفتگو کی گئی تو اُنہو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاـــ’’ آج کی دنیا موجودہ انٹرنیٹ کے ذریعے ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔دنیا ایک دوسرے سے بہت قریب ہوچکی ہے مگر ہم آج بھی پیچھے ہیں، پسماندہ ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم طرح کی زندگی گزار رہے ہیں۔تحصیل ہندواڑہ سے صرف چند میل ہی کی دوری پر اوچھر ماگام ہے مگر اس علاقے کی متعدد بستیوں کا حال بہت برا ہے اور یہاں کامواصلاتی نظام بالکل بدحال ہے۔ہمیں ایک فون کال کرنے کے لیے یا تو کسی اونچی جگہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے یا کئی کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ہم انٹرنیٹ سے بالکل محروم ہیں۔بالکل قدیم زمانے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تنویر مزید کہتے ہیں کہ’’ امید ہے کہ ہمیں تو ان سہولیات کا ابھی تک کوئی فائدہ نہیں مل پایا مگرجونئی نسل پیدا ہو رہی ہے اور تعلیم حاصل کر رہی ہے اُس کے مستقبل کو مدے نظر رکھتے ہوئے شاید اب جلدی ہی اس علاقے کے مواصلاتی نظام کو درست کردیاجائے اور شاید آنے والی نسلیں اس کافائدہ حاصل کر سکیں۔‘‘
آج دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ مواصلاتی نظام انتہائی برق رفتاری سے چل رہا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف لوگ ایک دوسرے سے قریب آ چکے ہیں، بلکہ دوردراز کے ممالک بھی ایک دوسر ے سے بے انتہا قریب پہنچ چکے ہیں۔ چند سکنڈ میں کمیونکیشن کی ترسیل ہزاروں میل کی دوری سے کی جا سکتی ہے، لیکن ان سب کے باوجود جموں و کشمیر کے کچھ اضلاع کی حالت ایسی ہے کہ اگر یہاں سے باہر کا انسان اس کے بارے میں سنے تو اسے یقین کرنا بھی دشوار ہو جائے گا۔ کشمیر کے سرحدی ضلع کپواڑہ کے متعدد علاقے آج بھی ایسے ہیں، جہا ں لوگ مواصلاتی نظام سے بڑی حدتک نا واقف ہیں اور ابھی بھی زمانہ قدیم کی طرح زندگی گزارنے پرمجبو رہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہاں پر سکونت اختیار کرنے والے لوگوں کے ساتھ دوہرا رویہ کیوں اپنایاجا رہا ہے؟ہندوستان کے دیگر ریاستوں کی طرح یہاں کے لوگوںکے لئے یہ مواصلاتی نظام کی فراہمی کو یقینی کیوں نہیں بنایا جا رہاہے؟ آخر یہاں کی نسلیں کب تک اس طرح سے حیران و پریشان زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی رہیں گی؟اس سلسلے میں جب سابق گوجر بکروال اسٹیٹ ایڈوائزری بورڈ کے ممبر سیف الدین پھامڑہ سے گفتگو کی گئی تو انھو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا’’آمد بہار ہرکس نہ آمد بہار مارہ ” والی بات آج بھی ہمارے ساتھ ہے ۔دنیا چاند تک پہنچ چکی ہے، لیکن ہم آج بھی اپنی قسمت کو ہی کوس رہے ہیں ۔‘‘ ضلع ہیڈ کواٹر سے صرف تین کلومیٹر کی دوری پر گوس کپوارہ ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ یہ علاقہ میونسپلٹی کے ساتھ منسلک ہے، لیکن یہاں ایک فون کال کرنے کے لیے مکانوں کی چھت پر نیٹ ورک سرچ کرنی پڑتی ہے۔اس طرح کے متعدد علاقے اور بھی ہیں، جہاں نیٹ صرفنگ تو دور، فون کرنے کے لئے بھی گاؤں سے نکل کر کئی کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے۔ظاہر ہے بنا مواصلاتی نظام کے ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیسے ہو سکتے ہیں اور یہاں کے عوام سوشل میڈیا جیسے اہم ذرائع ابلاغ سے کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں؟ یہاں کی عوام کا بس ایک ہی سوال ہے کہ آخر ان کی زندگی میں روشنی کب آئے گی اور وہ زمانے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے قابل کب ہوں گے؟
اس دور میں انٹرنیٹ اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے اور موبائل ایک خاص وسیلہ ہے، کیونکہ بغیر انٹرنیٹ کے آن لائن تعلیم ناممکن ہے، لیکن ان سب کے باوجود جموں و کشمیر کے متعدد علاقوں میں انٹرنیٹ کی صورتحال بے انتہا خراب ہے۔ جموں و کشمیر میں ہگنی کوٹ ایک ایسا ہی دیہی علاقہ ہے ، یہاں کی اکثر یت گوجر آبادی پر مشتمل ہے۔اس علاقے کے نوجوان طالب علم مدثر آحمد پسوال سے جب تعلیم اور دیگر سہولیات کے تعلق سے پوچھا گیا، تو اس طالب علم نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں یوپی ایس سی امتحان کی تیاری کرنا چاہتا ہوں۔ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو، لیکن اس دور میں مجھے جس چیز نے بہت پریشان کیا ہے ، وہ ہے موبائل نیٹ ورک کا نہ ہونا۔
انٹرنیٹ سے ایک طالب علم اپنے نصاب کو مکمل کر سکتا ہے اور کئی طرح کی مدد اس دور میں ایک طالب علم کو انٹرنیٹ سے حاصل ہو سکتی ہے۔یہ بات معلوم نہیں ہو رہی ہے کہ ہمیں اس دور میں اس سہولیات سے کیو ںدور رکھا جا رہا ہے؟اگر ہم قدرتی طور پر اس قابل ہیں کہ ہم ملکی یا ریاستی سطح پر کسی بھی امتحان میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ، تو پھر ہمیں ان جدید سہولیات سے محروم کیو ں رکھا جا رہا ہے ، پھر ہمارے ساتھ یہ سوتیلاسلوک کیو ں کیا جا رہا ہے؟”اسی طرح سے جب ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقہ کے باشندہ شبیر آحمد خان سے گفتگو کی گئی اور اُ ن کے علاقے کے بارے پوچھا گیا، تو اُنہو نے کہا’’ًًان کاعلاقہ تحصیل ہیڈکوارٹر سوگام سے کچھ کلو میٹر کی دوری پر ہی یہ علاقہ واقع ہے لیکن موبائل نیٹورک تک دستیاب نہیں ہے۔‘‘ وہ مزیدکہتے ہیں کہ ’’آج کا انسان مریخ اور مشتری کا سفر کر چکا ہے۔لیکن ہم نے آج تک موبائل نیٹ ورک کو بھی اچھی طرح نہیں دیکھا ہے۔ آخر ہم کس قدر دنیا سے بے خبر ہیں جو دنیا آج سوشل میڈیا جیسی چیزوں سے بھی محروم ہیں۔‘‘
جموں وکشمیرکے ان دیہی علاقوں میں اگر یہی صورتحال رہی اور یہاں کی عوام اور یہاںکے ذہین طالب علموں کو بہتر سہولیات فراہم نہ کی گئیں، تو وہ دن دور نہیں کہ جموں وکشمیرکا شمار انتہائی پچھڑی اور بدحال ریاست میں ہوگا۔اس لیے حکومت ہند کو چاہئے کہ ان علاقوں کی طرف بھی وہ توجہ دے تاکہ یہاں کے بھی بچے پڑھ لکھ کر ملک و قوم کانام پوری دنیا میں روشن کریں۔ (چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *