اپنا حق کس سے مانگیں؟
عرفان مغل
سیڑھی خواجہ
پونچھ
کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں سڑکوں کا اہم کردار ہے۔ جہاں سڑکیں ہو نگی وہاں ترقی ہو گی اور جہاں سڑکیں نہیں یا خستہ حال ہیں وہاں پسماندگی اور غربت یقینی بات ہے۔شہری علاقوں کو چھوڑ کر اگر دیہی علاقوں کی سڑکوں کی ناگفتہ بہہ حالت کو دیکھا جاے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دیہی علاقے ابھی صدیوں ترقی نہیں کرپائیں گے۔کچھ لمحے اگر جموں و کشمیر کے دیہی علاقاجات کی سڑکوں پر نظر دوڑائیں تو سڑکیں تو نہیں خستہ حال کھنڈرات نما ٹریکٹر ٹرالی کی طرح کی سڑکیں دیکھنے کو ملیں۔جن پر اگر گاڑی میں سفر کریں تو کلیجہ منہ کو آئے۔ دھوپ میں پیدل سفر کریں تو دھول سے بھوت بن جائیں بارش میں چلیں تو کیچڑ سے یوں لگتاہے۔ دھان کے موسم میں دھان کے کھیت میں سے گزر رہے ہیں۔
اس کی تازہ مثال ضلع پونچھ کی تحصیل حویلی کے گاؤں سیڑھی چوہانہ تا براستہ سیڑھی خواجہ گگڑ کوٹ جانے والی چار کلو میٹر سڑک ہے۔ اس سڑک کی حالت زار پر عبدالجبار نامی 35 سالہ شخص نے بتایا کہ جب سڑک نکلی تھی تب ایک امید جاگی تھی کہ اب یہاں کی عوام کی قسمت جاگ اٹھی ہے۔ لیکن چند سال بعد ہی یہ سڑک نالیاں نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگئی۔دوسال پہلے تارکول بھی بیچھائی گئی۔ وہ بھی بارشوں کے زوردار پانی کی نظر ہوگئی۔ اب سیڑھی خواجہ سے گگڑ کوٹ سڑک انسان تو درکنار جانوروں کے چلنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ اس سڑک کا کام 2015 میں محکمہ تعمیرات عامہ کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ جس میں لوگوں کی مالکیتی زمینوں کی کٹائی کر کے متعدد کنبوں کو بے گھر کر دیا تھا۔لیکن اب تک اس علاقع کے لوگوں کو سڑک کی خستہ سے حالی سے راحت نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ کئی بار یہاں کے زمہ داران کی جانب سے انتظامیہ کو مطلع بھی کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی کچھ ہوتا نظر نہیں آیا ہے۔
ستر سال سے کئی نئی پرانی حکومتوں نے اس عوام کا استحصال کیا۔ اب جبکہ گزشتہ ایک سال سے مرکز کے زیر اہتمام ہیں۔ کوئی بھی عوام کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ سبز باغ باغ تو کہیں دن میں تارے دیکھاے جارہے ہیں۔ایسے میں عوام اپنا حق کس سے مانگیں؟یہی حالات رہے تو ایسے میں علاقع کی ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ جہاں لاکھوں کا خرچہ سڑک کی تعمیر پر خرچ کیا جاتا ہے۔ وہاں چند لاکھ نالیوں کے لئے مختص نہیں۔ سڑک کی خستہ حالی کیا جاسکتا ہے؟ یاپھر عوام کے لئے راحت پسند نہیں؟ نالیاں نہ ہونے سے سڑکوں میں جمع ہونے والا ساراپانی سڑک کے دونوں جانب مکانوں اور فصلوں کو بھی بھاری نقصان دے رہا ہے۔ سڑک میں بڑے بڑے کھڈے پڑے ہوے ہیں۔ نالیوں کا نام و نشان نہیں ہے۔ ساراپانی سڑک کے کھڈوں میں کئی کئی دن تک رکا پڑا رہتا ہے۔ سخت بارشوں سے ساراپانی گھروں میں گھس جاتا ہے۔ اور گھروں میں تمام تر سامان ودوسری اشیاء خراب ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا مکان بیرون ریاست میں جاکر مزدوری کرکے بنایا ہے۔ لیکن پانی آنے کی وجہ سے میرے مکان سخت نقصان ہو رہا ہے زوردار بارشوں میں اپنے مال و اعیال کو لیکر کسی دوسرے گھر میں چلا جاتا ہو ں کہ ناجانے کب بارشوں کا سارا پانی مکان میں گھس جائے اور مال و اعیال کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اگر سڑک کے ساتھ نالی بنائی گئی ہوتی تو سڑک سے عوام کو بھی راحت ملتی گاڑی مالکان کو بھی امدنی ہوتی اور میرے رہاشی مکان کو نقصان بھی نہ ہوتا کیونکہ سڑک کا تمام تر پانی گھر کے اندر داخل ہوجاتا ہے۔ اور باقی کا پانی میری زمین میں فصلوں کا نقصان کرتا ہے۔ میرے پاس اس زمین سے پیدا ہونے والے اناج کے علاوہ اور کوئی وسائیل بھی نہیں کہ جس سے میں اپنے بچوں کے پیٹ کی بھوک مٹا سکوں لیکن پارشوں کا کھلا پانی میرے فصلوں کو ہی نقصان کر دیتا ہے میں ایک مزدور شخص ہوں چھ مہینے بیرون ریاست میں جاکر مزدوری کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہوں اور میں نے کئی بار متعلقہ آفیسران و ضلع انتظامیہ سے گزارشات کی کہ اس سڑک کی جلد سے جلد مرمت کر کے نالیاں بنائی جائے تاکہ بارشوں کے پانی سے میرے مکان اور میری فصلوں کا نقصان ہو اگر اس سڑک کی حالت بہتر ہوتی اور یہاں سڑک کے ساتھ میں نالی ہوتی تو سڑک بھی بچ سکتی ہے۔ لوگوں کو راحت بھی میسر ہوسکتی ہے۔
ان کے علاوہ شہزاد احمد جن کی عمر 24 سال ہے جو کہ ایک کسان ہیں انہوں نے بات کرتے ہوے کہا کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہاں کی عوام صدیوں پرانی زندگی جینے پر مجبور ہے۔مرکز کی جانب سے عوام کی سہولیات کے لئے پیسہ تو آتا ہے۔ لیکن غریبوں تک کچھ نہیں پہنچتا سڑکوں کی کٹائی کر کے لوگوں کی مالکیت زمینیں برباد کر دی جاتی ہیں۔ نہ ہی سڑک پائے تکمیل تک پہونچتی ہے۔ اور ساتھ میں زمینوں کا بھی نقصان ہوجاتاہے۔ ہونا ایسا چاہئے کہ اگر زمینوں کی کٹائی کی جاتی ہیتو پھر سڑکوں کی حالت کو بہتر کر دیا جاتا۔ مگر نہ لوگوں کی سڑکیں بنیں اور نہ ہی زمینیں بچی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سیڑھی خواجہ تا گگڑ کوٹ جانے والی سڑک پر چھ سے سات پنچائتیں مشتمل ہیں۔ اور اس کی خستہ حالت کی وجہ سے کئی حادثات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ لیکن انتظامیہ غفلت کی نیند میں ہے قریب پانچ سال ہو چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک اس سڑک کی مرمت نہیں ہو سکی۔ یہ سڑک انسانوں کے چلنے کے قابل بھی نہیں تو اس سڑک پر گاڑیاں کیسے چلے گی؟ جو گاڑیاں چل بھی رہی ہے وہ تباہ و برباد ہو چکی ہیں۔ کیونکہ جگہ جگہ بارشوں سے پڑے کھڈے پسیاں گر آنے وجہ سے آنے جانے والے مسافروں کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر یہاں لوگوں کی زمینوں کی کٹائی کی جاچکی ہے،سڑک بھی بنادی گئی ہے، تو اب دیر نہیں ہونی چاہئے کہ یہاں سڑک پر تارکول بیچھائی جاے۔ لیکن یہ تارکول تب تک کار گر نہیں جب تک کہ سڑک کو نالیاں میسر نہیں ہونگی۔ نالیاں ہونگی تو سڑکوں کی عمریں دراز ہونگی۔ نالیاں نہیں تو سڑکوں کی خستہ حالت بہتر کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن جاے گی۔ اور اس معاملہ پر جب محکمہ تعمیرات عامہ کے اسیسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر
سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اس سڑک کا کام سی ٹی این اسکیم کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ لیکن رقومات کی قلت کی وجہ سے کام میں تاخیر ہورہی ہے جوں ہی رقومات کی واگزاری ہوتی ہے تو اس سڑک کے آن لائن ٹینڈر لاگا کر کام شروع کروایا جائے گا۔ جو کہ سیڑھی خواجہ سے گگڑکوٹ جانے والی سڑک پر ہائر سکینڈری سکول سیڑھی خواجہ سے ایک کلو میٹر آگے تارکول بچھائی جائے گی۔ اور تین دن کے بعد آن لائن تارکول ٹینڈرنگ سائٹ کھولے گی جس کے بعد اس سڑک پر تارکول بچھانے کے لئے ٹینڈر ڈالا جائے گا۔لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ کی یقین دہانیوں میں کتنی سچائی ہے اور عوام کو کتنا انتظار اور کرنا پڑے گا۔(چرخہ فیچرس