جہاں تعلیم گاہیں خستہ حال وہاں تعلیم کا کیا ہوگاحال
محمد ریاض ملک
اڑائیوی منڈی، پونچھ
جموں وکشمیر
کرونا وائرس کے دور ہویاگزشتہ کچھ سال ان میں تعلیم کا نظام بجاے بہتر لگتا نہیں سدھر رہاہے۔سرکاری اسکولوں کی عمارتیں اس قدر ناقص مواد سے تعمیر ہوتی ہیں کہ اکثر عمارتیں پانچ چھ سا لوں میں ہی یاتو زمین بوس ہوجاتی ہیں یاپھر سرے سے بیٹھنے کے قابل ہی نہیں رہتی ہیں۔حالات یہاں تک پہونچ چکے ہیں کہ اب سرکاری اسکول صرف غریب نادار اور پسماندہ لوگوں کے نونہالوں لے لئے مخصوص بن چکے ہیں۔جہاں نہ اساتذہ کو حاضری کی فکر، نہ انتظامیہ کو عمارت کی فکر اور نہ تابناک ماضی کی اساتذہ کو کوئی اندیشہ! جو آئے اس کا بھی بھلاجو نہ آئے اس کا بھی بھلا!
جموں وکشمیر کا ضلع پونچھ ایک طرف سے وادی کشمیر کے ساتھ اور دوسری جانب سے پاکستان کی سرحدوں سے ملا ہواہے۔ سرحدوں کی مار الگ لیکن جو اندرونی تعلیمی معیار کی گراوٹ کی مار ہیوہ اس سرحدی شعلہ باری سے کئی گناہ خطرناک ثابت ہورہی ہے۔90فیصدی سکول کی عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ایسا نہیں کہ سرکار کی جانب سے رقومات کی واگزاری میں کچھ کمی رہی ہے۔ بلکہ صرف جو رقومات خرچ کرنے میں گھریلو سیاست،کنبہ پروری، قوم پرستی، ذاتی مفاد اور رشوت خوری اپنے عروج پر رہی ہے۔اس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کی عمارتیں اس قدر ناقص مواد سے تعمیر ہوتی ہیں کہ پانچ یا چھ سال ہی کھڑی رہ پاتی ہیں۔یاپھر سالوں سیاست کی رسہ کشی کا شکار بن کر سرکار کی جانب سے دی جانے والی رقومات کا زیاں کردیتے ہیں۔یاپھر بچت کی حوس میں رقومات کا خردبرد ہوناکوئی نئی بات نہیں۔
ضلع پونچھ سے قریب 40 کلومیٹر دور لورن بلاک ہیڈ کواٹر سے چند کلومیٹر کی دوری پر مڈل سکول دھن ڈنہ پنچائیت کھڑپہ میں قائیم ہے۔جو سردیوں کے چھ ماہ دھن میں اور گرمیوں کے چھ ماہ ڈنہ میں قائیم رہتاہے۔قابل توجہ یہ ہیکہ نہ دھن میں عمارت کا کوئی حال ہے۔اور نہ ڈنہ میں ہی عمارت کا نام نشان ہے۔اب جہاں سر پہ چھت نہیں، بیٹھنے کو چٹائی نہیں وہاں تعلیم کا نظام کس طرح بہتر ہوگا؟ کیا گزرتی ہوگی ان اساتذہ اور طلباء پر جب زیادہ دھوپ یا بارش ہوتی ہوگی؟ آخر کیوں یہ حالت ہے۔اس عمارت کی؟ عبدالجبار تانترے جو اس پنچائیت کے سابقہ سرپنچ بھی رہ چکے ہیں۔اس موسمی اسکول کی عمارت کی حالت زار پر بات کرتے ہوے کہتے ہیں کہ یہ موسمی اسکول ہے۔ چھ ماہ دھن میں اور چھ ماہ ڈنہ میں اسکول کھلتاہے۔ لیکن نہ دھن میں عمارت کسی کام کی اور نہ ہی ڈنہ میں عمارت ہے۔ جس کی وجہ سے محکمہ تعلیم کے حکم کے مطابق جوں ہی بارش ہونے کا اندیشہ ہوتاہے تو چھٹی کردی جاتی ہے۔ چٹائی اور اساتذہ کی کرسیاں اور میڈ ڈے میل کا راشن کسی کے گھر میں رکھنا پڑتاہے۔ہر صبح سامان کو نکالنے کے لئے محتاجی اور ہر شام سامان رکھنے کے لئے منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔
محکمہ کی جانب سے ڈنہ میں اسکول کی تعمیر کے لئے کچھ رقومات واگزار کی گئی ہے۔لیکن اس کی تعمیر میں سیاست حائیل ہوگئی۔مقامی لوگوں کے دو گروہ بن گئے۔جس کی وجہ سے عدالت سے کام کرنے پر پابندی لگادی ہے۔ اب جہاں پہلے اسکول کی عمارت تھی وہاں سرکاری زمین کا بہانہ اور جہاں بنایا جا رہا ہے وہاں راستہ نہ ہونے اور بچوں کے حق میں معقول جگہ نہ ہونے کا بہانہ بناکر اپنی سیاست چمکا ر ہی ہے۔ بشیر احمد شیخ قریب 36 سال سے زائید عمر کے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنچائت بٹل کوٹ لورن وارڈ نمبر 7 میں قائیم موبائل اسکول کی عمارت عرصہ دو سال سے گِر چکی ہے۔ اور باقی بھی گرنے کے قریب ہے۔ نہ دروازے ہیں نہ کھڑکیاں ہیں۔ اب حالت یہاں تک آ گئی ہے کہ لوگ اس اسکول میں اپنے مال مویشی باندھتے ہیں۔ نہ چٹائی ہے۔،نا کوئی دوسرا بندوبست ہے۔ بچے پریشان اساتذہ بھی پریشان ہیں۔اور ڈنہ میں عمارت نام کی کوئی شے نہیں بلکہ کھنڈرات موجود ہیں۔جو بطور یاداشت یا نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ عمارت کی خستہ حالی عوام کے نونہالوں کو سیاسی مار کہیں محکمہ تعلیم کو ذمہ دار یا پھر غریب عوام کی بد نصیبی! اسکول کے رنگ روغن یا دوسرے لوازمات پورے کرنے کے لئے محکمہ تعلیم کی جانب سے ہر سال 50 ہزار سے ایک لاکھ تک رقم مختص کی جاتی ہے۔پر وہ رقم خرچ کہا ں ہوتی ہے؟ کوئی خبر تک نہیں ہے۔
لورن چونکہ بلکل پہاڑیوں کے دامن میں آباد ہے۔جس کی وجہ سے یہاں موسم کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کس وقت کیسا ہوگا۔ موسم کی مار اور بچوں کی مشکلات کو دیکھتے ہوے انتظامیہ کی جانب سے ازسر نو تعمیر کے کام کی غرض سے رقومات مختص کرکے عمارت تعمیر کرنے کا حکم نامہ جاری کیاہے۔اس حکم نامے پر بھی اب یہاں کی مقامی گھریلو سیاست اپنی روٹی سیک کر بچوں کا مستقبل تاریک کرنے پر تلی ہوئی ہے۔یہی معاملہ جب محکمہ تعلیم کے زونل ایجوکیشن پلاننگ آفیسر منڈی محمد اسلم کوہلی کے ساتھ اٹھایاگیاتو ان کا کہنا تھاکہ لورن میں مڈل سکول نلّآ کی عمارت کے لئے SSA اسکیم کے تحت 9لاکھ روپیہ واگزار کیا گیاتھا۔ کیوں کہ یہاں مڈل سکول ہوتے ہوے ایک چھوٹے سے کمرے میں آٹھ جماعتوں کے سو سے زائید بچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔پرانی عمارت بلکل منہدم ہوچکی ہے۔ جس کو دیکھتے ہوے ازسر نو اسکول کی عمارت کی تعمیر کیلئے یہ نو لاکھ روپیہ مختص کیا گیاتھا۔ لیکن وہاں جگہ نہ ملنے سے اسی رقم کو ڈنہ مڈل اسکول کے لئے بدل دیاگیا۔ جب رقم بھی موجود ہو تب جگہ نہ ملے یہ ایک افسوس ناک امر اور محکمہ کے لئے بھی ایک مشکل کام ہوتاہے۔
چونکہ جہاں سابقہ عمارت ہے۔وہاں پر کچھ لوگوں کا اعتراض ہے۔ لیکن جہاں ازسرنو تعمیر کرنے کے لئے جگہ کا تعین کیا گیاتھاوہاں پر بھی لوگوں کا اعتراض ہے۔ اب یہ معاملہ عدالت میں دائیر ہے۔ کب اور کیا فیصلہ ہوگا؟یہ وقت ہی بتائے گا۔ اس کے علاوہ ا سکول منٹننس کا /70000 روپیہ موجود ہے۔ جس کو وہاں پر تعینات اساتذہ نے استعمال ہی نہیں کیاہے۔ کئی بار اس کے بارے میں اساتذہ کو کہابھی گیا لیکن نہ جانے کیوں یہ رقم اس ا سکول کی مرمت اور رنگ روغن پر خرچ نہیں کی گئی۔ اب اس کا کام وارڈ نمبر سات کے ممبر کے حوالے کیاہے۔ جس نے جلد ہی اس کی مرمت کرنے کا وعدہ کیاہے۔اب جب یہ اس اسکول کی حالت ہے جس کا وجود دہائیوں سے سیاست کی آغوش میں ہے۔جہاں برسوں رقم پہونچ نہیں پاتاوہاں کا کیا حال ہوگا؟ ان حالات میں تعلیم پر لاک ڈاؤن ہی رہے تو بہتر رہے گا!
کیوں کہ اب جب سرکاری اسکولوں میں سیاست ہونے لگی ہے۔ عوام کے رہبر ونمائیندگان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنیں میں مصروف ہوجائیں۔اور ان سرکاری اسکولوں کے لئے سرکار اور انتظامیہ کی جانب سے مختص کی جانے والی رقومات تعمیر میں صرف 20 سے 30فیصدی خرچ ہوں تو پھر ان عمارتوں کی یہی خستہ حالت ہوگی۔ تین یا چار سال کے اندر ہی زمین بوس جایا کریں گی۔ اور ہوتے بھی جارہے ہیں۔ عمارت تو درکنار چٹایاں ڈیسک بلیک بورڈ چاک خاکے پانی بجلی کھیل کا میدان وغیرہ 80فیصدی اسکولوں سے زائید میں فقدان ہے۔ ایسی حالت میں بس غریبوں کے بچے ہی ان براے نام بے یار و مددگار اسکولوں میں اندراج کروانااپنی مجبوری سمجھتے ہیں۔ امیروں، ٹیچروں ودیگر ملازمین کے بچے غیر سرکاری اسکولوں میں اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہیکہ گورنمنٹ مڈل ا سکول دھن ڈنہ کے اسکول عمارت کی تعمیر پر سیاست ختم کرکے نونہالوں کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جائے۔ محکمہ تعلیم اپنے ہاتھ میں کام رکھے۔نہیں تو غیر جانب دار شخص کے ہاتھ میں کام دیاجاے۔اور جلدی سے اسکول کی تعمیر اور دھن میں عمارت کی مرمت کی جاے۔تاکہ مزید انتظار ختم ہوسکے۔(چرخہ فیچرس
