شکر ہے۔۔۔۔ می لارڈ کو غصہ آیا
ایم ودود ساجد
دہلی اس وقت کورونا کیپٹل بن گیا ہے۔ گزشتہ روز ہی 94 اموات ہوئی ہیں۔ نومبر کے مہینے میں اب تک ہر روز سات ہزار سے زیادہ معاملات کورونا کے آتے رہے ہیں۔۔ ملک میں سب سے زیادہ متاثر ریاست مہاراشٹر تھی۔ممبئی کا حال بہت خراب تھا۔ لیکن اب وہاں حالات ٹھیک ہو رہے ہیں اور دہلی اس سے آگے نکل رہا ہے۔
تبلیغی جماعت
یہ تمہید اس لئے باندھنی پڑی کہ اپریل اور مئی کے مہینوں میں، جب ہر روز ایک ہزار سے نیچے کورونا کے معاملات آ رہے تھے، دہلی کے وزیر اعلی اور وزیر صحت اور خود مرکزی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے جوائنٹ سکریٹری ہر شام کو پریس بریفنگ میں بتاتے تھے کہ 30 فیصد کورونا کے معاملات تبلیغی جماعت کی وجہ سے پھیلے ہیں۔
اروند کیجریوال کی بریفنگ
اروند کجریوال کے ہر روز یہ بتانے کا اثر یہ ہوا کہ ریپبلک ٹی وی، زی ٹی وی اور انڈیا ٹی وی جیسے شرانگیز چینلوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف عموماً اور تبلیغی جماعت کے خلاف خصوصاً ایک انتہائی زہریلی مہم چلائی اور دو مہینوں تک انہیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا۔ میں تبلیغی جماعت کا دفاع اس لئے کر رہا تھا کہ شرپسندوں کے لئے تبلیغی جماعت والے کچھ اور نہیں صرف مسلمان ہیں۔اور یہ چینل جس طرح سے مہم چلا رہے تھے اس کا نقصان بلا امتیاز ملک بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ہونا تھا۔ شاید اسی لئے مسلمانوں کے ہر مکتب فکر اور ہر مسلکی تنظیم نے تبلیغی جماعت کے خلاف چلنے والی اس مہم کے خلاف آواز بلند کی تھی اور ہر مکتب فکر کے قائدین نے ساتھ دیا تھا۔
شیطانی مہم
اس دوران ارنب گوسوامی کے چینل ریپبلک اور خود ارنب گوسوامی نے سب سے زیادہ غلیظ، بھیانک اور خوفناک کردار ادا کیا تھا۔ اس کی ہر روز ہونے والی ڈبیٹ دیکھ کر جب خود ہمارا ہی خون کھولتا تھا تو دوسرے طبقات کا تو اور زیادہ کھولتا ہوگا۔ ان تمام چینلوں نے کورونا جہاد، کورونا بم، کورونا آتنک واد اور اسی جیسی خطرناک اصطلاحات کو بنیاد بنا کر لمبے لمبے پروگرام بنائے۔ خدا کی اس سیدھی سادی مخلوق کو کورونا بانٹنے والی انتہائی خوفناک مخلوق بنا کر پیش کیا۔ ارنب جیسے شیطان نے تو یہاں تک کہا کہ جماعت ایک آفت ہے اور وہ ہندوستان کو اٹلی بنانے کے لئے کورونا بانٹنے کے لئے ملک بھر میں پھیل گئی ہے۔ اس نے بداخلاقی کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے پروگرام کا ٹائٹل رکھا: کہاں چھپا ہے ماسٹر مائنڈ مولانا سعد؟
عدالت کا دروازہ
اس شیطانی مہم کے بعد پورے ملک میں مسلمانوں کو جس طرح پریشان کیا گیا وہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ خاص طور پر کمزور اور مزدور قسم کے مسلمانوں کو پریشان کیا گیا۔ ملی جلی آبادی میں پڑوسی ہندوؤں نے مسلمانوں سے رابطہ منقطع کرلیا۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہندو بھی ہم جیسوں کو دیکھ کر آنکھوں سے نفرت کا اظہار کرنے لگے۔ ایسے میں ضروری تھا کہ ان شرپسند چینلوں کے خلاف کوئی مؤثر قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔ اس وقت ملک بھر کی پولیس بھی بطور خاص مسلمانوں کے خلاف ایک خاص ذہن سے کام کر رہی تھی، اس لئے پولیس میں شکایت درج کرانے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا۔ آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں ایک معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے ماخوذ افراد میں مسلمانوں کی زیادہ تعداد دیکھ کرججوں نے پولیس سے پوچھا تھا کہ کیا لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی صرف مسلمانوں نے ہی کی ہے۔ ایسے میں چینلوں کے خلاف سپریم کورٹ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
عدالت میں رٹ
میں نے جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے سکریٹری مولانا فضل الرحمن سے اس سلسلہ میں بات کی تھی اور انہوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ قانونی کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔ آخر کار اپریل 2020 میں جمعیت علماء نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کردی۔ بعد میں پیس پارٹی، ڈی جے ایچ فیڈریشن آف مساجد، مدارس اینڈ اوقاف انسٹی ٹیوٹ اور ایک شہری عبدالقدوس لشکر نے بھی رٹ دائر کیں۔ ان تمام رٹس پرچیف جسٹس کی بنچ نے حکومت کو نوٹس جاری کیا اور 8 اکتوبر 2020 کو مرکزی حکومت کے ذریعہ دیے گئے جواب کی روشنی میں سماعت شروع ہوئی۔
حکومت کا حلف نامہ
اس سلسلہ میں حکومت نے جو حلف نامہ داخل کیا اس میں پٹیشن دائر کرنے والوں کے کلیدی اعتراض پر کوئی بات ہی نہیں کی گئی تھی اور چینلوں کو شرارتاً بچانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اندازہ لگائیے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ کے سامنے کھڑی ہے لیکن کیسی بے دلی اور بے احترامی کے ساتھ جواب دے رہی ہے اور کس طرح سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔
آٹھ اکتوبر کو چیف جسٹس آف انڈیا نے مرکزی حکومت کے حلف نامہ پر سخت ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ حلف نامہ کسی جونیئر قسم کے افسر نے تیار کیا ہے اور یہ نامکمل، ناقص، بے حیائی سے بھر پور اور فرار اختیار کرنے سے عبارت ہے۔ چیف جسٹس نے حکومت سے کہا کہ اس عدالت کے ساتھ آپ اس طرح سلوک نہیں کرسکتے۔ عدالت نے پوچھا کہ پٹیشن دائر کرنے والوں نے جو الزامات میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں) پر لگائے ہیں ان کاجواب کہاں ہے؟ عدالت نے کہا کہ سکریٹری سطح کا افسر دوسرا جواب تیار کرکے عدالت میں پیش کرے۔ اس وقت مرکزی حکومت کے وکیل سالسٹر جنرل تشار مہتا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خود نئے حلف نامہ کی تیاری کی نگرانی کریں گے۔ لیکن جب گزشتہ روز عدالت نے شنوائی کی اور نئے حلف نامہ کو دیکھا تو پھر عدالت کو غصہ آگیا۔ آپ حکومت کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ دوبارہ جو جواب داخل کیا وہ بھی اسی طرح کا مبہم، بے ہودہ، ناقص اورنامکمل داخل کیا۔ عدالت نے اس پر بھی سخت ناگواری کا اظہار کیا۔
حکومت نے عدالت میں کیا کہا؟
ان دونوں حلف ناموں میں حکومت نے عدالت سے یہی کہا کہ ان چینلوں نے بہت معتدل اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی۔ اس سے آگے بڑھ کر دوسرے حلف نامہ میں حکومت نے کارروائی کے جو اعداد و شمار پیش کیے ان سے صاف ظاہر ہوگیا کہ حکومت ان شر انگیز چینلوں کو بچانا چاہتی ہے اور ٹوئٹر، فیس بک اور دوسرے پلیٹ فارموں پر عوامی طور پر جو آواز اٹھائی جاتی ہے اسے دبانا چاہتی ہے۔ اسی لئے اس نے بتایا کہ ٹوئٹر کے خلاف 800 سے زیادہ نوٹس جاری کیے گئے۔
قانون کی زبان میں بات
اب یہاں ایک بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ عدالتوں میں قانون کی زبان میں بات ہوتی ہے۔ عدالت کو قانون ہی کے دائرہ میں یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ متاثرین کے ساتھ ملزمین نے ناانصافی کی ہے اور یہ کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کا جواز موجود ہے۔ قانون میں میڈیا کی آزادی کا الگ سے کوئی تصور نہیں ہے۔ لیکن اظہار رائے کی آزادی کے زمرہ میں میڈیا کو بڑی آزادی دی گئی ہے۔ یہ آزادی اسے آئین کی دفعہ ١٩، ١٩ اے اور ١٩ بی کے تحت حاصل ہے۔ لہذا جب بھی میڈیا کے خلاف عدالت میں سماعت ہوگی تو آئین کی ان دفعات کو سامنے رکھا جائے گا۔ یہ اشو بہت حساس بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔
حکومت کی چالاکی
حکومت نے بڑی چالاکی اور مکاری سے انہی دفعات کے تحت یہ کہنے کی کوشش کی کہ جمعیت علماء وغیرہ آئین کی دفعہ ١٩ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میڈیا کا گلا گھونٹنا چاہتی ہے۔ یہی وہ ترپ کا پتہ ہے کہ جس پر اگر عدالت پھسل جائے تو پھر کارروائی آگے نہیں بڑھتی۔لیکن اس وقت ملک کی بعض ہائی کورٹوں اور خود سپریم کورٹ میں میڈیا کے حوالہ سے نصف درجن کے آس پاس معاملات چل رہے ہیں اور ان تمام معاملات میں جتنی بھی شنوائی ہوئی ہے اور اس کے دوران ججوں کے جو تبصرے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب شرانگیز میڈیا کی ناک میں نکیل ضرور ڈالی جائے گی۔
آزادی کا ناجائز استعمال
مثال کے طور پر 8 اکتوبر کو ہی جب سپریم کورٹ حلف نامہ پر اظہار ناگواری کر رہا تھا تو حکومت نے اظہار رائے کی آزادی کا سوال اٹھایا۔ لیکن چیف جسٹس نے پلٹ کر کہا کہ ان دنوں اس آزادی کا کچھ زیادہ ہی ناجائز استعمال ہو رہا ہے۔ 17 نومبر کی سماعت میں چیف جسٹس نے اس پر مزید وضاحت سے ناگواری ظاہر کی۔ انہوں نے آخر کار وہی سوال کرلیا جو آج تک سپریم کورٹ نے دوسرے اسی طرح کے معاملات میں نہیں کیا تھا اور جو بہت ضروری تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھ ہی لیا کہ آخر پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے آپ کے پاس کیا انتظام ہے۔ یہ کوئی کم اہمیت کا سوال نہیں ہے۔
این بی ایس اے
یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس وقت خود چینل والوں نے ہی این بی ایس اے نام سے ایک پرائیویٹ اتھارٹی بنا رکھی ہے۔ اس اتھارٹی میں شکایتیں بھی کی جاتی ہیں۔ ان پر ایکشن بھی ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ ایکشن کتنا غیر مؤثر ہوتا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس اتھارٹی کی غیر مضبوطی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو چینل شرانگیزی پھیلاتے ہیں ان کے سردار ارنب گوسوامی کا چینل اس اتھارٹی کا ممبر ہی نہیں ہے۔ لہذا اس پر کوئی بھی ایکشن لاگو ہی نہیں ہوتا۔ اس نے کچھ علاقائی چینلوں کو ملاکر خود ہی ایک اتھارٹی بنا رکھی ہے۔ لہذا چیف جسٹس نے 17نومبر کی سماعت میں اس پر بھی ناگواری ظاہر کی کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی میکانزم نہیں ہے کہ ان شرانگیز چینلوں کو کنٹرول کیاجائے۔ اسی لئے انہوں نے کہا کہ اگر ایسی کوئی سرکاری اتھارٹی موجود نہیں ہے تو حکومت اس کی تشکیل کرے اور اگر نہیں کرسکتی تو ہمیں بتائے، ہم کسی باہری ایجنسی کو یہ ذمہ داری سونپ دیں گے۔ یہ بھی کوئی چھوٹا تبصرہ نہیں ہے۔
عدالتی بحث
میں نے انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کیا ہے کہ عدالتوں اور خاص طور پر سپریم کورٹ میں جب کسی قانونی نکتہ پر بحث ہوتی ہے تو اس کا طرز عام گفتگو سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ قانون پر باریکی سے نظر رکھنے والوں کو اس کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ 17نومبر کو سپریم کورٹ میں جو کچھ کہا گیا اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔عدالت نے حکومت کو تین ہفتوں کا وقت دیا ہے۔ اب تیسرا حلف نامہ کس طرح کا آتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔دیر ضرور ہو رہی ہے لیکن نتیجہ کچھ اچھا ہی ہوگا۔
جمعیت علماء سے عرض
سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑنا آسان نہیں ہے۔ بہت موٹی موٹی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ جمعیت علماء نے بہت سینئر وکیل کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ دشینت دوے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں۔انہوں نے حال ہی میں ارنب گوسوامی کو ضمانت دیے جانے کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کو ایک سخت خط بھی لکھا تھا جس میں خود چیف جسٹس پر بھی انہوں نے سوال کھڑا کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ حلف نامہ آ جائے تو بحث کا وقت بھی آئے گا۔ یقین ہے کہ دشینت دوبے بحث کے دوران ارنب گوسوامی کی زہر افشانی کی مثالیں دیں گے بھی اور کچھ کلپ دکھائیں گے بھی۔ بس عرض یہ ہے کہ ہر سماعت کے بعد آپ جس طرح سے خصوصی طور پر ایک لمبا چوڑا بیان جاری کرکے سپریم کورٹ کی ستائش فرماتے ہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، نہ سپریم کورٹ آپ سے یہ چاہتی ہے اور نہ آپ کو یہ کرنا چاہیے۔ کچھ باتیں اشاروں میں سمجھنے کی ہوتی ہیں۔ تفصیل سے لکھنا بھی مصلحت کے خلاف ہوتا ہے۔۔۔ وقت ملے تو غور ضرور کیجیے۔