بھارت میں پانی کی قلت
آصف میر آبص
ملک میں عام لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت کا کتنا زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں واقع منڈی کے دیہی علاقوں میں اس کی کیا صورت حال ہے، اس کو جاننے کے لیے یہ رپورٹ ضرور پڑھیں۔
یکم جولائی٢٠١٩ کو جل شکتی منترالیہ کی طرف سے ایک نئی اسکیم جاری کی گئی تھی۔ جس کو جل شکتی ابھیان کا نام دیا گیا۔ عامر خان کو اس ابھیان کا ایمبیسڈر بنایا گیا۔ دراصل اس ابھیان کو عوام کے درمیان پانی کے تحفظ کے لیے بیدار کرنے کے مقصد سے چلایا گیا تھا۔ اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ ملک کے ایسے علاقاجات کے عوام کو پینے کا پانی مہیا کروایا جائے جہاں پانی کی شدید قلت رہتی ہے۔ جولائی 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے 256 اضلاع ایسے تھے جہاں پانی کی کمی تھی اور اس ابھیان کو شروع کرنے کا مقصد محض یہی تھا کہ ان 256 اضلاع کے عوام جو کہ پانی کی قلت کی وجہ سے دو چار ہیں، انہیں پانی کی سہولت مہیا کروائی جائے۔
نہیں بدلی پونچھ کی حالت
مگر افسوس کہ ملک کے دیگر علاقاجات کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ کے عوام بھی ان اسکیموں کے متعارف ہونے کے باوجود پانی کی بوندوں کو ترس رہے ہیں۔ ضلع پونچھ میں ڈیڑھ سال کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی سرکار کے اس خواب کی زمینی سطح پر تعبیر دیکھنے کو نہیں ملی رہی ہے۔ سرکار کا یہ حکم نامہ ایک تحریر تک ہی محدود رہا۔ یہ ابھیان صرف اخباروں کی زینت بنتا رہا اور موٹے موٹے الفاظ میں لکھا گیا۔ مگر زمینی سطح پر کوئی بھی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جل شکتی ابھیان برائے نام رہ گیا ہے۔ موجودہ ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں سرکار ملک کو ڈیجیٹل بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے وہیں اگر زمینی سطح پر نظر ڈالی جائے تو عوام بنیادی مسائل سے دو چار ہیں۔ آئے دن پانی کی قلت کے سوال پر اخباروں اور دوسرے میڈیا میں مضامین کے ساتھ ہی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ دنیا چاند پر جا رہی ہے اور نئے نئے تجربے کر کے ترقی کر رہی ہے اور اپنے ملک کے عوام اب تک بنیادی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔
منڈی کے دھڑہ کی حالت
جس ملک میں لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے ہوں، گندہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہوں، گھر سے کئی کیلو میٹر دور پیدل چل کر تپتی ریگیستانی دھوپ اور پہاڑوں سے گزر کر پینے کا پانی لانے پر مجبور ہوں، وہاں ٹیکنالوجی اور ترقی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ آئے دن پانی کے مسئلے پر خالی برتنوں کے ساتھ لوگ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سرحدی علاقہ پونچھ کی تحصیل منڈی کے پسماندہ گاؤں دھڑہ کے باشندگان کو بھی پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہاں کے عوام ترقی کے دور میں بھی پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ سات وارڈ پر مشتمل اس گاؤں میں تقریباً 1500 کی ابادی ہے۔ لیکن یہاں کے عوام کو بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ گاؤں دھڑہ کے وارڈ نمبر پانچ کے مقامی باشندہ محمد رشید میر نے بتایا کہ سال ٢٠٠٨ میں وارڈ
میں پانی کی لائن محلہ جبڑی سے محلہ میراں تک لگائی گئی تھی۔ ماہ رمضان میں پائپیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر سڑک سے کم از کم ایک گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد پہاڑی کی بلندی پر پہنچائی اور پھر خود ہی لگائی۔ لائن لگانے کے وقت بھی ایک سپروائزر کے علاوہ کوئی ملازم نہیں آیا۔ اس کے بعد محکمہ کے ملازمین کہاں گم ہیں کسی کو کوئی خبر نہیں۔ اس لائن کو لگے ہوئے آج 12 سال ہو چکے ہیں۔ پائپیں پھٹ چکی ہیں۔پائپوں سے پانی لیک ہونے کی وجہ سے لوگوں کی زمینوں میں پسیاں پڑ گئی ہیں لیکن ان کی مرمت کو کوئی ملازم نہیں آتا۔ اسی گاؤں کے تعلیم یافتہ نوجوان ارشاد لون نے بتایا کہ کسی سماجی تقریب شادی بیاہ کے موقع پر گھوڑوں پر لاد کرر پانی اکھٹا کیا جاتا ہے۔ بارش کا پانی اکھٹا کر کے مال مویشی کو پلایا جاتا ہے۔
لڑکیاں چشمے سے لاتی ہیں پانی
آج کے اس ڈیجیٹل دور میں یہاں کی صنف نازک دور دراز چشمے سے اپنے سر پر پانی کا گھڑا اٹھا کر کئی گھنٹوں کا پیدل سفر طے کر کے صرف دس لیٹر پانی گھر پہنچا پاتی ہیں۔ اس بات سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ گاؤں کتنا ڈیجیٹل ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آج تک اس لائن پر محکمہ جل شکتی کا کوئی ملازم نہیں آیا۔ بارہا محکمہ کے دفاتر کے چکر کاٹنے کے بعد صرف یقین دہانی کے سوا کچھ نہیں۔ زمینی سطح پر کیا ہو رہا ہے، یہ بات سوچ سے بالاتر ہے۔
آٹھ سال میں بھی کام مکمل نہیں
گاؤں کے سماجی کارکن چودھری محمد سلیم نے محکمہ جل شکتی کی نااہلی اور کاہلی کا ایک اور زندہ ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کی لفٹ اسکیم کا کام ٢٠٠٨ میں شروع کیا گیا تھا جسے ٢٠١٦ میں مکمل کر دیا گیا۔کاغذات میں تو یہ کام مکمل ہے لیکن زمینی سطح پر نامکمل ہے۔ لفٹ اسکیم کے تحت چار واٹرٹینک بنائے گئے ہیں۔ محلہ کنال کے واٹر ٹینک سے محلہ ٹھنڈی بنی کے واٹر ٹینک تک پانی چڑھایا جاتا ہے، جس سے گاؤں کے نچلے گھروں کے باشندوں کو پانی ملتا ہے۔ لیکن باقی کے دو ٹینک جو محلہ تھپلہ اور محلہ موربن میں تعمیر کیے گئے ہیں ان میں عرصہ گزرنے کے بعد بھی پانی سپلائی کو بحال نہیں کیا گیا ہے۔ مقامی باشندہ جاوید اقبال اس گاؤں کے باشندوں کی بے بسی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دس سال میں صرف ایک بار تھپلہ کے واٹرٹینک کی لیکیج چیک کرنے کے لیے پانی چڑھایا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ ٹینک اور اس گاؤں کے باشندے منتظر ہیں کہ پانی ان کے گھر تک بھی پہنچے گا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ جب جب انتخابات کاسلسلہ شروع ہوتا ہے تو سیاسی لیڈر صرف ووٹ لینے کی خاطر آتے ہیں اور بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں، لیکن پھر آئندہ کے پانچ سال کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔ محکمہ کے ملازمین کے پاس جائیں تو وہ بھی یقین دہانی کروانے کے بعد لوگوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
پائپوں کا جال
گاؤں کے ایک پنچ شبیر میر کہتے ہیں کہ محکمہ نے گاؤں میں پائپوں کا جال تو بچھا رکھا ہے مگر پانی نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم نے اعلی حکام کو اپنی پریشانیوں سے آگاہ نہیں کروایا بلکہ ہم بارہا محکمہ کے آفسران سے ملے اور بات کی مگر افسوس کہ ہمیں نظر انداز کیا گیا۔انہوں نے ریاست کے لیفٹنینٹ گورنر سے اپیل کی کہ اس لفٹ اسکیم کے تعلق سے تحقیات کی جائے اور عوام کے ساتھ ناانصافی برتنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور عوام کو پانی فراہم کیا جائے۔
محکمہ کا ٹال مٹول
ان تمام لوگوں کی باتیں سننے کے بعد میں نے پانی کی قلت اور لفٹ اسکیم کا کام مکمل نہ ہونے کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے لیے متعلقہ محکمہ کے جے ای ای کو فون کیا اور جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے چند عرصہ پہلے ہی جوائننگ کی ہے میں اس کے متعلق نہیں جانتا۔ آپ اے ای ای سے بات کریں اور وہ اپ کو جانکاری فراہم کروائیں گے۔ جب ان کو فون کیا تو انہوں نے بھی بات اپنے سر سے ٹالتے ہوئے کہا کہ میں جے ای ای کا نمبر دیتا ہوں آپ ان سے بات کریں۔
اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ کے اعلی عہدیدار غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں جنہیں غریب عوام کی پریشانیوں سے کوئی مطلب نہیں۔ آج بڑے بڑے شہروں کی گلیوں میں پانی بچاؤ صفائی کا خاص دھیان رکھو اور بیت الخلا بناؤ کے اشتہارات لگائے جاتے ہیں۔ مگر ان بڑے بڑے افسروں کو یہ چھوٹی سی بات سمجھ میں نہیں اتی کہ سب چیزوں کا دھیان تو تب رکھا جائے گا جب پانی میسر ہو گا۔ کوئی ہے جو حکام کو جگائے اور پیاس سے تڑپتے لبوں کو نمی بخشے اور کار خیر میں حصہ لے؟
مضمون نگار منڈی، پونچھ کے رہنے والے ہیں۔ چرخہ فیچر