ملک میں کھیلوں کو فروغ دینے کے مقصد سے کھیلو انڈیا مہم شروع کی گئی ہے لیکن کھیل کے لیے بنیادی چیز یعنی میدان ہی کی فراہمی پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع کے حوالے سے پیش ہے چرخہ فیچرس کے لیے سید طاہر شاہ بخاری کی یہ خصوصی رپورٹ۔
اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا نے حال ہی میں کھیلو انڈیا ٹیلنٹ ڈیولپمنٹ اسکیم کے لیے 5.78 کروڑ روپے کی منظوری دی ہے۔ اس سے قبل جون 2020 میں کھیلو انڈیا پروگرام کے تحت کھیلو انڈیا سینٹرز آف ایکسیلنس کا آغاز کیا گیا تھا۔ یہ مراکز ملک میں کھیلوں کے ایک مضبوط ماحولیاتی نظام بنانے کے لیے قائم کیے گئے تھے تاکہ کھیلوں کو فروغ ملے۔ کھیلو انڈیا پروگرام نے 2020 میں ایتھلیٹوں کو کووڈ-19 کے دوران گھر میں اپنی غذا برقرار رکھنے کے لیے مالی مدد کی۔ہمارے ملک میں کھیلے جانے والے تمام کھیلوں کے لیے ایک مضبوط فریم ورک کی تشکیل کی گئی تاکہ کے ہندوستان کو کھیلوں کی ایک عظیم قوم کے طور پر قائم کیا جا سکے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے کھیلو انڈیا پروگرام متعارف کرایا گیا ہے۔ مذکورہ مقاصد کی تکمیل کے لیے کھیلو انڈیا پروگرام کو 12 عمودی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں کھیل کے میدان کی ترقی بھی ایک اہم حصہ ہے۔ امسال جموں و کشمیر میں بیک ٹو ولیج پروگرام کے تیسرے مرحلے کے تحت دیے جانے والے فنڈ میں اسپورٹس کٹس کے لیے خصوصیت کے ساتھ رقم مختص کی گئی اور پنچایتوں کو اسپورٹس کٹس کے لیے ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ صحت و تندرستی کے لیے نوجوان نسل کا رحجان کھیل کی طرف ہے کیونکہ توانا اور تندرست رہنے کے لیے کھیل بہت ضروری ہے۔وہیں عالمی وبائی مرض کورونا وائرس کے چلتے ایک پیغام دیا گیا کہ جو لوگ کھیل سے وابستہ ہیں وہ کسی حد تک کورونا سے محفوظ رہ سکیں گے۔ کھیل صرف بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ دور دراز علاقوں اور دیہاتوں کے نوجوان بھی دور حاضر میں کھیل سے جڑے ہوئے ہیں۔دیہی نوجوان مشکلات سے دو چار رہنے کے با وجود بھی کھیل کی جانب توجہ دے رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کے گاؤں شیندرہ کے لوگ انتظامیہ سے ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیلو انڈیا پروگرام کے تحت کھیل کے میدان کی ترقی بھی ایک لازمی جز ہے لیکن یہاں میدان ہی نہیں ہے کہ کھیل کو فروغ دیا جا سکے۔مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے بیک ٹو ولیج پروگرام کے تحت کھیل کٹس کے لیے رقم تو مختص کیے ہیں لیکن اس اسپورٹس کٹس کو کہاں استعمال کیا جائے گا اس کا انتظام نہیں ہے اور سرکار کا دھیان ایسے دور دراز علاقوں کی جانب کم ہے۔ شیندرہ کے باشندے کئی پریشانیوں سے دو چار ہیں مگر پڑھے لکھے، با صلاحیت، با شعور اور ذہین بھی ہیں۔ کسی بھی میدان میں پیچھے نہ رہنے والے شیندرہ کے باشندے کھیل کود کے میدان میں بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ لیکن یہ نوجوان کھیل کے میدان سے محروم ہیں۔ گاؤں میں کھیل کے میدان کی کمی محسوس کرتے ہوئے مقامی باشندہ سید ساحل بخاری، چیئرمین خدمت خلق ویلفیئر سوسائٹی نے کہا کہ شیندرہ کی نوجوان نسل کا رجحان کھیل کی جانب بہت ہے لیکن ان نوجوانوں کے پاس کھیل کود کا سامان اور میدان میسر نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نوجوان بیرون گاؤں دور دراز علاقوں میں پنہچ کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن افسوس! شیندرہ کھیل کے میدان سے محروم ہے۔
واضح رہے کہ سید ساحل نے چند نوجوانوں کی مدد سے پرائمری اسکول سارانہ کے گراؤنڈ کی مرمت کر کے اسے کسی حد تک کھیل کے میدان کی شکل دی ہے جس میں کرکٹ ٹورنامنٹ بھی کروایا گیا۔ انہوں نے ضلع انتظامیہ پونچھ سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیندرہ میں کھیل کے میدان کی تعمیر کی جائے تاکہ یہاں کے باصلاحیت نوجوان اپنے گاؤں میں کھیل سکیں۔ وہیں بائیس سالہ محمد حنیف کہتے ہیں کہ عصر حاضر میں نوجوان کھیل سے اس حد تک جڑ چکے ہیں کہ کھیل ان کے لیے کھانے پینے کی طرح ضروری ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پونچھ کے نوجوان جسمانی طور پر تندرست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجایت میں سرکار کی طرف سے جو فنڈ دیے جاتے ہیں ان کا صحیح استعمال کرتے ہوئے کھیل کا میدان تعمیر کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ دیہی نوجوان شہروں میں جا کر کھیلتے ہیں؟ گاؤں شیندرہ میں کھیل کا میدان نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سرکار کی نظر دیہی علاقوں کی طرف کم ہے۔ اس سلسلے میں مقامی باشندہ جہانگیر خان نے کہا کہ شیندرہ کے بعض اسکولوں میں گراؤنڈ بنے ہیں اور بعض اسکول ابھی گراؤنڈ سے محروم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسکول کے گراؤنڈ میں کھیلنے کی اجازت نہیں ملتی اور بڑا گراؤنڈ نہیں ہے، جہاں نوجوان کھیل کا لطف لے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو کبھی سڑک پر اور کبھی کھیتوں میں کھیلنا پڑتا ہے جس سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ کھیلو انڈیا پروگرام زمینی سطح پر کتنا کامیاب ہے۔ چرخہ فیچرس
